ریپ کی ویڈیو وائرل: 23 سالہ لڑکی اپنے ہی گھر میں قید

جمعرات 26 فروری 2015 22:40

ریپ کی ویڈیو وائرل: 23 سالہ لڑکی اپنے ہی گھر میں قید

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔26فروری۔2015ء)برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں ایک ریپ کے کیس کو اجاگر کیا گیا جس کی ویڈیو عام کردی گئی تھی جس کے بعد بی بی سی اردو پر ایک شخص نے مدد کی درخواست کی۔سعدیہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) ابتدائی طور پر خاموش رہیں تاہم ان کی گینگ ریپ کی ویڈیو بڑی شیئر ہونے کے بعد انہوں نے حکام کو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم سے آگاہ کیا۔

اب تک چار ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور ٹرائل چل رہا ہے تاہم وہ ویڈیو اب بھی لوگوں کے درمیان شیئر کی جارہی ہے جس کی وجہ سے سعدیہ اپنے ہی گھر میں قیدی بن کر رہ گئی ہیں۔اس کیس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سادیعہ جیسے کتنے ہی کیسز موجود ہوں گے جو بدنامی کے ڈر سے خاموش ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ یہ کیس پاکستان میں سائبر قوانین پر بھی سوال اٹھاتا ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں بھی ناکام ہیں۔


ریپ کی وہ ویڈیو جو 'وائرل' ہوگئی
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیکنالوجی تک رسائی میں اضافے کے باعث اس ویڈیو کو فیس بک اور بلو ٹوتھ کے ذریعے بڑی تعداد میں شیئر کیا گیا۔ یہ کہنے کی ضرورت تک نہیں کہ ایسے صورت حال سے نمٹنے کے لیے مناسب قوانین تک موجود نہیں۔23 سالہ سعدیہ کے گاؤں جیسے چھوٹے سے علاقے میں تقریباً ہر شخص ہی نے شاید یہ ویڈیو دیکھ لی ہوگی۔

ویڈیو کے باعث سعدیہ کو پڑھائی چھوڑنا پڑی کیوں کہ اسے معاشرے کا سامنا کرنے کا ڈر ہے حالانکہ اس معاملے میں وہ بے قصور ہے۔انہوں نے کہا کہ 'بہت سے لوگ اس ویڈیو کو دیکھ چکے ہیں جیسے کے یہ کوئی بہت دلچسپ چیز ہو۔'
قوانین
ملزمان کے خلاف اغوا، گینگ ریپ اور فحش مواد کی تقسیم کے الزمات ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت سے ویڈیو کو ویب سائٹس سے ہٹوانے کے لیے درخواست کی ہے تاہم سائبر کرائم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کوئی قوانین پاکستان میں موجود ہی نہیں۔ایسے کیسز میں ملزمان کا جنسی طور پر ہراساں کرنے یا ہتک عزت کے قوانین کے تحت ٹرائل لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نجی زندگی میں مداخلت کے قوانین بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔