پوسٹل سروسزکے حساس کام کی چھپائی پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے بجائے نجی کمپنی سے کروائی جا رہی ہے،

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف، پی اے سی کا اظہار برہمی، پوسٹل سروسز کو جدید پیمانے پر استوار کرنے کی ضرورت پر زور ڈیرہ مراد جمالی میں ایک کروڑ 58لاکھ روپے کی زکوٰة خردبرد کی گئی،کارروائی دو سرکاری ملازمین کے خلاف ہوئی، آڈٹ حکام کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کوبریفنگ ،معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کر دیاگیا ،سابق وزیرپوسٹل سروسز کے نجی دوروں پر 24لاکھ خرچ ہونے کابھی انکشاف

جمعرات 26 فروری 2015 22:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26فروری 2015ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی(پی اے سی) میں انکشاف کیا گیا کہ پوسٹل سروسز حساس پرنٹنگ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے بجائے نجی کمپنی سے کروائی جا رہی ہے، کمیٹی کے اظہار برہمی پر ایڈیشنل سیکرٹری وزارت مواصلات نے کمیٹی سے درخواست کی کہ پی اے سی یہ بھی ہدایت دے دے کہ ڈاکخانوں میں ڈاک لفافے دینا بند کر دیں، کمیٹی نے پوسٹل سروسز کو جدید پیمانے پر استوار کرنے کی ضرورت پر زور دیا، آڈٹ حکام نے بتایا کہ ڈیرہ مراد جمالی میں ایک کروڑ 58لاکھ روپے کی زکوٰة خردبرد کی گئی،کارروائی دو سرکاری ملازمین کے خلاف ہوئی، کمیٹی نے کیس ایف آئی اے کے سپرد کر دیا،سابق وزیرپوسٹل سروسز کے نجی دوروں پر 24لاکھ خرچ ہونے کابھی انکشاف ہوا ہے ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو قائمقام چیئرپرسن عذرا فضل پیچوہو کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں پوسٹل سروسز کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پوسٹ آفس سروسز میں 10کروڑ2لاکھ روپے کا فراڈ ہوا ہے، جس پر ایڈیشنل سیکرٹری وزارت مواصلات شاہد تارڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ 115کیسز تھے، جن میں 54افسران کو معطل کیا گیا،33مقدمات درج ہوئے،2کروڑ40لاکھ روپے ریکور کئے گئے ہیں، معاملات ایف آئی اے اور نیب کے پاس ہیں، کمیٹی نے ایف آئی اے اور نیب کو ہدایت کی کہ مقدمات کو جلد نمٹایا جائے ۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2005-6کے دوران ڈیرہ مراد جمالی اور ڈیرہ الہ یار میں ایک کروڑ 58لاکھ روپے کی زکوٰة خردبرد کی گئی، جس میں پوسٹ آفس کے 2 پوسٹ ماسٹرز کو پکڑا گیا ، جن کی تنزلی کی گئی، کمیٹی نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زکوٰة کمیٹی کے لوگوں کو کیوں نہیں پکڑا گیا اس کا کوئی نہ کوئی اثر ورسوخ ہو گا اس لئے سارا نزلہ سرکاری ملازمین پر ڈال دیا گیا، کمیٹی نے کیس ایف آئی اے کے سپرد کرتے ہوئے اصل ملزمان کو پکڑنے کی ہدایت کی ہے۔

آڈٹ حکام نے کمیٹی کو ہدایت کی کہ پاکستان پوسٹ آفس میں 7کروڑ 31لاکھ روپے کی رقم خلاف ضابطہ دی ہے، جس پر پرنسپل اکاؤنٹنگ آفسر شاہد خان تارڑ نے بتایا کہ 1947ء سے 2015ء تک پاکستان پوسٹ آفس سے ایک ارب 60کروڑ روپے کا خسارہ اور فراڈ ہوا ہے، جبکہ روزانہ پاکستان پوسٹ آفس ساڑھے تین ارب روپے کی ٹرانزیکشن کرتا ہے، کمرشل بینکوں سے خسارہ اور فراڈ کا تناسب انتہائی کم ہے، ہم سسٹم کو اپ گریڈ کر رہے ہیں، ملازمین کو ٹریننگ کے ساتھ ساتھ جدت بھی لائی جا رہی ہے، اگر اس ادارے میں کل وقتی سیکرٹری لگا دیا جائے تو معاملات زیادہ بہتر ہو سکتے ہیں، اربوں روپے کی جائیداد اس ادارے کے پاس ہے، کمیٹی نے پاکستان پوسٹ آفس کی مجموعی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان پوسٹ آفس نے خلاف ضابطہ پاکستان پوسٹل سروسز فنڈز بنا کر8کروڑ 30لاکھ روپے منتقل کئے ہیں، جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک سال کے دوران صرف ایک ملین روپے خرچ ہوئے ہیں،8کروڑ 20 لاکھ روپے موجود ہیں، کمیٹی نے ہدایت کی کہ مذکورہ رقم واپس جمع کروا کے وزارت خزانہ کی منظوری سے فنڈ قائم کیا جائے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ آفس نے 115روپے ماہانہ گڈ پرفارمنس الاؤنس بغیر اجازت گریڈ 1 سے گریڈ15تک کے ملازمین کو دیا، جس پر 3کروڑ 75لاکھ روپے خرچ ہوئے ۔

کمیٹی نے پوسٹل سروسز حکام کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے آڈٹ پیراز کو نمٹا دیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ ادارے نے یومیہ اجرت پر 1062ملازمین رکھے جن پر ایک سال کے دوران ایک کروڑ 72لاکھ روپے خرچ ہوئے، وزارت کے حکام نے بتایا کہ مذکورہ ملازمین ادارے کی ضرورت تھے جنہیں بعد ازاں مستقل کر دیا گیاہے، اب نئی بھرتیوں کیلئے اخبارات اور این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی کیاجاتا ہے، کمیٹی نے معاملہ نمٹا دیا۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ آفس نے 30مختلف گاڑیاں 3کروڑ 30لاکھ روپے میں خلاف ضابطہ خریدیں، وزارت حکام نے بتایا کہ چھوٹی گاڑیاں ادارے کی ضرورت تھی تب خریدیں گئیں، کمیٹی نے ادارہ جاتی انکوائری کرانے کی ہدایت کی ہے۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ پوسٹل سروسز بغیر اجازت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے بجائے پاکستان پوسٹل فاؤنڈیشن سے ایک کروڑ چار لاکھ روپے کے ریونیو سٹیمپس چھپوائیں، کل کلاں لوگ نوٹ بھی پرنٹ کرنا شروع کر دیں گے،پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر نے کہا کہ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کو اربوں روپے ادارے نے ادا کرنا ہیں اور نہ ہی اس کے پاس ڈاک لفافے چھاپنے کی مشینری ہے جس کی وجہ سے یہ فاؤنڈیشن سے چھپوائے گئے ہیں، ایکنیک اور پارلیمانی کمیٹی کے لیول پر یہ معاملہ ڈسکس ہوا، کنٹرولر جنرل نے بھی اس کی اجازت دی ہے۔

آڈٹ حکام نے اس موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ چیزیں صرف پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن میں ہی چھپ سکتی ہیں، یہ انتہائی حساس معاملہ ہے، کمیٹی نے پرنٹنگ مٹیریل پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن سے چھپوانے کی ہدایت کی تو پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر نے کہا کہ کمیٹی یہ بھی ہدایت دے کہ لفافے ڈاکخانوں میں نہ لائے جائیں، کیونکہ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے پاس پرنٹنگ مشینری نہیں ہے اس کیلئے چھ ماہ سے ایک سال بھی لگ سکتا ہے تو کیا ہم لفافے فروخت کرنا چھوڑ دیں، جس سے کمیٹی نے اتفاق کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ادارے کی بہتری کیلئے کمیٹی کو سفارشات دی جائیں، وزارت خزانہ پاکستان پوسٹ آفس کے ذمہ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے واجب الادا رقوم ادا کرے، کمیٹی نے آڈٹ حکام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آڈٹ حکام بھی دیکھیں کہ کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس کی جانب سے چٹھی کس کی منظوری سے جاری ہوئی، کمیٹی نے آڈٹ اعتراض کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ سابق وفاقی وزیر پوسٹل سروسز سردار محمد عمر گورگیج نے کراچی ، ملتان اور کوئٹہ کے ذاتی دوروں پر 24لاکھ 62ہزار روپے خرچ کئے،پی ایم جی ملتان نے 72 ہزار، پی ایم جی کراچی نے گاڑیوں کی مرمت کیلئے 11لاکھ، ہوٹل کے اخراجات کیلئے 10لاکھ کے اخراجات کئے، کمیٹی نے سابق وزیر سے ریکوری کی ہدایت کر دی۔

متعلقہ عنوان :