کراچی ،امن کنونشن میں یوتھ پارلیمنٹ کا عبدالستار ایدھی کو خراج تحسین،

ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جو برداشت رکھتا ہو ۔نثاراحمد کھوڑو ،معیشت کی مظبوطی سے امن کا گہرہ تعلق ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار، دہشت گردوں نے لاشیں گرائیں ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے لا شیں اٹھائیں ہیں ۔ رضوان جعفر،دولت کی منصفانہ تقسیم ہی امن لا سکتی ہے۔ عبدالستار ایدھی

جمعرات 26 فروری 2015 19:34

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26فروری 2015ء) یوتھ پارلیمنٹ اور حکومت سندھ، اسپورٹس اور یوتھ افئیرز ڈپارٹمنٹ کے زیر اہتمام امن کنونشن مقامی آڈیٹوریم میں منعقد کیاگیا۔ جس میں سندھ بھر سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔علالت کے باوجود معروف سماجی کارکن اعبدالستار ایدھی نے بحثیت مہمان ِ خصوصی شرکت کی ۔یوتھ پارلیمنٹ نے عبدالستا ر ایدھی کو امن کی کاوشوں پر خراجِ تحسین پیش کیااور 100 نئے ارکین یوتھ پارلیمنٹ نے عبدالستار سے حلف اٹھایا ۔

یوتھ پارلیمنٹ کے بانی چئیرمین رضوان جعفر نے کہا کے دہشت گردوں نے لاشیں گرائیں ہیں ، عبدالستار ایدھی نے لاشیں اٹھائیں ہیں، نہ صرف دھماکوں خودکش حملوں ، ٹارگٹ کلینگ اور حادثا ت کے مواقعوں پر بلکہ سمندروں اور دریاوں سے بھی عبدالستار ایدھی نے اپنے ہاتھوں سے لاشیں نکالی ہیں ۔

(جاری ہے)

آج ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ امن کا ہے۔

آج عبدالستار ایدھی کو اس لئیے امن کنونشن میں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعوں کیا گیا ہے ،کہ ہم دنیا کو بتا دینا چاہیتے ہیں کہ پا کستان کے نوجوان امن اور انسانیت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اور ملک میں بدامنی اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہیتے ہیں ۔ مہمانوں نے عنوان پاکستان میں امن کیسے ممکن کے موضو ع پر کا اظہارے خیال کیا۔عبدالستار ایدھی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دولت کی مضافہ تقسیم امن لاسکتی ہے ورنہ غربت ، جرائم اور دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔

سادگی ، سچائی ، محنت اور ایمانداری کو اپنا کر ہی ارباب اختیار ملک اور قوم کی خدمت کرسکتے ہیں بلکہ دنیا میں ہمارا ملک نمونہ بن سکتا ہے۔ کمی یہ ہے کہ پڑوس میں بھی کوئی دکھی ہے تو ہم اس کا خیال نہیں کرتے۔جناب نثار احمدکھوڑو سئینر وزیر ِ تعلیم حکومت سندھ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، امن لانے کیلئے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔لیکن ابھی تک مکمل انتظامات نہی ہوسکے کے مکمل امن ممکن ہوسکے ۔

اللہ نے ہمیں ملک دیا لیکن ہم رہنے والوں نے ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے برداشت نہیں کیا اور اپنی بات منوانے کی کوشش میں ، دوسروں کو نیچا دیکھا تے ہوئے اس منزل پر پہنچے ہیں کہ اپنے سائے پر بھی شک ہوتا ہے کہ وہ بدامنی تو پیدا نہیں کردے گا۔اصل بات یہ ہے کہ ہم برداشت کرنا سیکھیں۔ ایک ایسا معاشر قائم ہو جو برداشت رکھتا ہو اور برداشت کا معاشرہ قائم نہ کرنے میں ہم سب کی کمزوریاں ہیں ۔

خوشی یہ ہے آ ج ان مسائل پر نوجوان بڑی تعداد میں نوجوان موجود ہیں ،یہ نوجوان اپنے لئے فکر مند ہیں ملک کے لئے فکرم مند ہیں اور ملک کو بہتر بنا نا چاہیتے ہیں۔ آج ہم ساری قوم سے وعدہ کروائیں کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت کریں گے۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ : پاکستان میں امن لانے کے لئے ہم سب کو ملکر جدو جہد کرنی ہوگی ، اُن سیاستدانوں اور سیاسی جما عتوں کا انتخاب کرنا ہوگا جو ملک میں عام آدمی کے مسائل کو حل کرسکے، تعلیم صحت اور روز گار ہی امن کی امید دے سکتا ہے ۔

روز گار کی فراہمی کے لئے حکومتوں کو جو اقدامات اٹھانے چاہئیں تھے وہ نہ ہوسکے ، مثال کے طور پر صرف اگر موبائل فون بنا نے کا سلسلہ پاکستان میں شروع ہوجاتا توآج بڑی تعداد میں نوجوان بے روز گار نہ ہوتے ۔ میعشت کی مظبوظی سے امن کا بہت گہرا تعلق ہے۔ اگر ہنگامی بنیادوں پر میعشت کو بہتر کیا جائے جس سے عام آدمی کو فوائد اور موقع حاصل ہوں تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی ۔

جمہوریت کا ثمر اس وقت عوام کو مل سکتا ہے جب بلدیات کا بہتر نظام موجود ہو ، عوام کے نمائندے عوام کے درمیان ہوں اور ان کے مسائل حل کرسکیں ۔ یوتھ پارلیمنٹ کے نئے ارکین کو حلف اٹھانے پر مبارک بعد پیش کرتا ہوں اور یہاں آکر مجھے بھی توانائی اور امید حاصل ہوئی ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔کیپٹن محمد طاہر نوید ڈی آئی جی کراچی ویسٹ نے کہا کہ : یہ ایک دن میں ہم یہاں نہیں پہنچے ہمیں سوچنا ہوگا، سبق سکھنا ہوگا، اگر ایسا نہ کرینگے تو پھر ایک دوسرے پر ذمیداریاں ڈالتے رہ جائینگے ۔

پشاور کے سانحہ کے بعد پوری قوم اور ارباب اختیار ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں، قومی ایکشن پلان بنا یا گیا ہے اور کام شروع ہوچکا ہے ، نتائج نظر آرہے ہیں، کراچی میں اسٹریٹ کرائم کو روکنے کے لئے اس کی وجوہات پر غور کرنا ہوگا، نوجوان سب سے بڑا سرمایہ ہیں ، عوام اور پولیس کو ملکر کام کرنا ہوگا جبھی کراچی میں امن ہوسکے گا۔نوجوانوں نے بھی کئی سوال اٹھائے، جن میں خاص طور پر کہا گیا کہ امن کیسے ممکن ہوسکتا ہے جب ملک میں تعلیم ، صحت اور روزگار کی بنیادی سہولتیں موجود نہ ہوں۔