پوسٹل سروسز میں زکوة فنڈز سے ایک کروڑ 16 لاکھ کی کرپشن کا انکشاف

جمعرات 26 فروری 2015 17:11

اسلام آباد(اردپوائنٹ۔تازہ ترین اخبار ۔26 فروری 2015) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پوسٹل سروسز کے سابق وفاقی وزیر عمر گورگیج کی وزارت میں لاکھوں روپے کے غیرقانونی اخراجات کی تحقیقات کا حکم دے دیا‘ پی اے سی نے ڈیرہ مراد جمالی میں زکوة فنڈز سے بھاری خوردبرد کی تحقیقات اور ذمہ داران کو سخت سزائیں دینے کیلئے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے‘ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ قومی سرمایہ لوٹنے اور کرپٹ افراد کو بچانے کیلئے بڑے افسران نے ایک دوسرے کو بچانے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس جمعرات کے روز عذرا پلیجو کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزارت پوسٹل سروسز مالی سال 2011ء کے مالی حسابات کاجائزہ لیا گیا۔ پوسٹل سروسز میں زکوة فنڈز سے ایک کروڑ 16 لاکھ کی کرپشن سامنے آئی ہے۔

(جاری ہے)

یہ مقدمہ پی اے سی نے ایف آئی اے کو بھجوادیا ہے۔ یہ غریبوں کا پیسہ ہے اس کی ریکوری ضرور ہونی چاہئے۔ ارکان نے کہا کہ سرکاری افسران کی مدد کے بغیر کرپشن نہیں ہوتی۔

ڈیرہ مراد جمالی کے دو پوسٹ ماسٹر اس سکینڈل کے ذمہ دار ہیں۔ پی اے سی نے ذمہ دار سرکاری اہلکاروں کیخلاف ایکشن نہ لینے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ ٹینڈر دستاویزات میں ہیرا پھیری کرکے 14 لاکھ کی کرپشن سامنے آئی۔ یہ کرپشن مظفرآباد (آزاد کشمیر) میں کی گئی۔ یہ کرپشن 2008-09 میں کی گئی۔ مظفر اور علوی ملزمان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ کرپشن کی رقم سرکاری ملازمین کی پنشن سے کاٹی جائے اور رپورٹ پی اے سی میں دی جائے۔

پوسٹل سروسز جنرل میں 64 کروڑ 28 لاکھ کی کرپشن کا ایک نیا سکینڈل سامنے آیا۔ آڈٹ حکام نے اس کرپشن کا کھوج 2006ء میں لگایا تھا۔ اس رقم میں 11 کروڑ سے زائد کی رقم واپس خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی تاہم محکمے بجٹ میں مختص رقم کا خیال رکھیں۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ بجٹ میں مختص فنڈز جو استعمال میں نہیں آئے وہ واپس وزارت خزانہ کو بھیج دئیے جائیں اور اس پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہئے۔

آڈٹ حکام نے کیش ایوارڈ کے تحت 7 کروڑ سے زائد کے فنڈز میں خوردبرد کی نشاندہی کردی ہی۔ یہ خوردبرد 2009-10ء میں کی گئی۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ ملازمین کو کیش ایوارڈ دیتے وقت وزارت خزانہ سے منظوری لی جائے۔ سیکرٹری شاہد تارڑ نے کہا کہ کیش ایوارڈ دینے سے فنڈز اکٹھے زیادہ ہوئے ہیں لیکن یہ سکیم ختم کردی گئی ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ قواعد و ضوابط بناکر یہ سکیم دوبارہ شروع کریں لیکن اس کیلئے متعلقہ وزارت خزانہ سے اجازت لی جائے۔

سیکرٹری نے کہا کہ ملک بھر میں ڈاکخانوں کی تعداد 12 ہزار سے زائد ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس محکمے میں فوری طور پر اصلاحات کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ظلم کی بات ہے کہ ڈاکخانہ کا قانون 1898ء ہم اسے بھی تبدیل نہیں کرسکے اس قانون میں ترمیم ہونی چاہئے۔ شاہد تارڑ نے کہا کہ ریفارمز کمیٹی بنادی ہے جو غلط سفارشات سامنے لائے گی۔ اگر وزارت خزانہ سروسز چارجز ڈاکخانہ کو دیدے تو یہ محکمہ خسارے سے نکل آئے گا۔

سیکرٹری مواصلات نے بتایا کہ ملک میں کوریئر سروسز کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی ریگولیٹری اتھارٹی نہیں ہے۔ پوسٹل آفس کا امیج ہر محکمہ پر پڑا ہے۔ کرپشن اور نااہلی اس محکمہ کا امیج بنادیا گیا ہے۔ 1947ء سے لے کر آج تک اس ادارے کا نقصان ڈیڑھ ارب ہے۔ یہ محکمہ روزانہ 3 ارب روپے کی بلنگ کرتا ہے۔ اس ادارے کے پاس اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں انہیں استعمال میں لاکر ادارے کو منافع بخش بنایا جاسکتا ہے۔

آڈٹ حکام نے پوسٹل سروسز فنڈز سے 8 کروڑ 3 لاکھ کی کرپشن کی نشاندہی کی ہے۔ یہ فنڈ وزارت خزانہ کی اجازت کے بغیر قائم کیا گیا ہے۔ اس فنڈ کے رولز بھی نہیں بنائے گئے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ 83 ملین واپس خزانے میں جمع کروائے جائیں۔ سیکرٹری مواصلات نے کہا کہ اس فنڈ سے 10 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں باقی خزانے کے پاس ہیں۔ قوانین بنانے کیلئے مشیر نے سفارشات دے دی ہیں۔

یہ 10 لاکھ روپے بورڈز کے ممبران کے ٹی اے ڈی اے پر خرچ ہوئے ہیں۔ افسران نے یہ فنڈ تو بنایا لیکن قواعد نہیں بنائے۔ یہ ادارہ پہلے ہی 4 ارب روپے حکومت سے وصول کررہا ہے۔ یہ فنڈ واپس خزانے کو دینے کی ہدایت کردی ہے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ حکومت کی منظوری کے بغیر فنڈز نہیں لے سکتے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ 83 ملین واپس وزارت خزانہ کو دیں۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ 3 کروڑ 80 لاکھ روپے الاؤنس کی مد میں غیرقانونی طریقے سے ادا کردئیے۔

پی اے سی نے ہدایت کی کہ اس کی منظوری بھی وزارت خزانہ سے لیں۔ آڈٹ حکام نے بغیر اجازت 17 ملین ملازمین کو ادا کرنے پر اعتراض اٹھایا۔ یہ رقم 1062 ڈیلی ویجز ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں ادا کی گئی۔ وزارت نے کہا کہ اب ان ملازمین کو مستقل کردیا گیا ہے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ پوسٹل سروسز نے 3 کروڑ 24 لاکھ کی غیرقانونی گاڑیاں بلڈنگ فنڈز سے خریدی ہیں جوکہ غیرقانونی ہے۔

پی اے سی نے اس آڈٹ پر شدید اعتراض کیا کہ اور کہا کہ آئندہ کسی بھی خرچ کی وزارت خزانہ سے منظوری لی جائے۔ یہ خریداری 2010ء میں کی گئی تھی۔ پی اے سی نے کہا کہ منی بل پارلیمنٹ میں پاس کیا اس کو ایگزیکٹو حکم سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اقدام اچھی نیت سیکیا گیا ہو۔ پی اے سی نے اس خریداری کو قانونی بنانے پر یہ پیرا مزید کارروائی تک موخر کردیا۔

آڈٹ حکام نے پوسٹل سروسز وزارت میں کاغذات کی اضافی پرنٹنگ کرواکر ایک کروڑ سے زائد کا غبن کیا جوکہ کرپشن 2009ء کو پوسٹ آفس کراچی کے سربراہ نے کیا۔ کراچی پوسٹ ماسٹر جنرل نے نجی کمپنی سے لفافے و دیگر کاغذات کی پرنٹنگ کرواکر خزانے کو نقصان پہنچایا حالانکہ یہ پرنٹنگ کارپوریشن سے ہوتی ہے۔ پی اے سی نے اس اہم سکینڈل کی اعلی پیمانے پر تحقیقات کا حکم دیا۔

آڈٹ حکام نے سکھر میں ڈاکخانہ کی تعمیر میں 27 لاکھ روپے کے غیرقانونی اخراجات کی مزید تحقیقات کا حکم دیا۔ یہ ڈاکخانہ کی زمین منتقلی کا معاملہ ہے۔ پی اے سی نے مزید دو ماہ میں یہ معاملہ حل کرنے کی سفارش کی۔ آڈٹ حکام نے سابق وفاقی وزیر پوسٹل سروسز کے اخراجات پر 24 لاکھ روپے ادا کرنے پر اعتراض کیا۔ یہ اخراجات مذکورہ وزیر نے ٹی اے ڈی اے‘ ٹیلیفون‘ گیس اور ہوٹل بلوں کی مد میں ادا کئے تھے۔

اس پیرا کو کابینہ ڈویژن سے بات کرنے پر موخر کردیا۔ پی اے سی نے نیشنل بینک کو ہدایت کی کہ پوسٹل سروسز کو جلد 50 لاکھ روپے ادا کرے۔ آڈٹ حکام نے کرائے کی مد میں ملازمینا ور پوسٹل کوارٹر پر غیرقانونی قابضین سے 17 لاکھ روپے وصول نہ کرنے پر اعتراض کیا۔ سیکرٹری نے بتایا کہ کمیٹی بنادی ہے جو لاہور جاکر تمام جائیداد کا جائزہ لے گی اور ایک ماہ میں رپورٹ دے گی۔ اجلاس میں عاشق گوپانگ‘ جاوید اخلاص‘ جنید اقبال‘ نذیر سلطان‘ جعفر لغاری‘ نعیمہ کشور اور محمود خان اچکزئی نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :