اسلام آباد،ترنول پولیس نے ایک ماہ بارہ دن تک نجی ٹارچر سیل میں نوجوان کو تشدد اور فائرنگ کر کے زخمی کرنیوالے سب انسپکٹر،اے ایس آئی سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ،

مقدمہ کے اندراج کے بعد اعلیٰ پولیس افسران نے مدعی پر صلح کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ،آئی جی اسلام آباد نے دونوں ملازموں کو معطل کرنے کی بجائے انھیں تھانہ ہی میں تعینات رہنے کا حکم دیا

بدھ 25 فروری 2015 21:01

اسلام آباد(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 25 فروری 2015ء ) ترنول پولیس نے ایک ماہ بارہ دن تک نجی ٹارچر سیل میں رکھ کر نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنانے اور فائرنگ کر کے زخمی کرنے والے اسلام آباد پولیس کے سب انسپکٹر،اے ایس آئی سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے،مقدمہ کے اندراج کے بعد اعلیٰ پولیس افسران نے مدعی پر صلح کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ،آئی جی اسلام آباد نے دونوں ملازموں کو معطل کرنے کی بجائے انھیں تھانہ ہی میں تعینات رہنے کا حکم دے دیا جبکہ ایس پی صدر کیپٹن(ر) محمد الیاس نے ایس ایچ او ترنول انسپکٹر محبوب احمد کو مقدمہ میں نامزد دونوں پولیس اہلکاروں کو گرفتار نہ کرنے کی ہدایت کی ہے،اس سلسلے میں ایس ایچ او ترنول انسپکٹر محبو ب احمد نے رابطہ کرنے پر سب انسپکٹر،اے ایس آئی سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ کی تفتیش سب انسپکٹر شبیر احمد کو سونپ دی گئی ہے،عدالتی حکم پر جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے کیونکہ مدعی مقدمہ کا بیٹا کار لفٹر ہے اور چالیس مقدمات میں چالان یافتہ ہے،اس سلسلے میں ایس پی صدر سے رابطہ کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے فون اٹیند نہیں کیا۔

(جاری ہے)

باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ترنول پولیس نے انور حسین کی مدعیت میں سب انسپکٹر لیاقت علی،اے ایس آئی نور اللہ،عامر حیات اور دو نامعلوم افراد کے خلاف اس کے بیٹے حسن جاوید کو ٹانگ میں گولی مارنے اور ایک ماہ بارہ دن تک نجی ٹارچر سیل میں رکھ کر تشدد کرنے کا الزام ہے،”اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار.

25 فروری 2015ء“ کو ذرائع نے بتایا کہ مدعی نے موقف اپنایا کہ اس کے بیٹے نے عامر حیات سے تین لاکھ اسی ہزار روپے میں کار خریدی اور تین لاکھ روپے ادا کر دئیے اور اسی ہزار روپے ادا کر کے ٹرانسفر لیٹر دینے کا کہا،جب بیٹے نے عامر کو اسی ہزار روپے دینے کے لیے رابطہ کیا تو اس نے کہا تم نے ایک لاکھ تیس ہزار روپے کم ادا کیے ہیں ،اتنی رقم دو تو ٹرانسفر لیٹر دونگا،23مئی 2014کو بیٹا لاہور گیا تو واپسی پر موٹروے ٹول پلازہ پر کھڑی پولیس نے بیٹے کو کار نمبر KW168سمیت گرفتار کر کے اس وقت اے سی ایل سی میں تعینات سب انسپکٹر لیاقت علی،اے ایس آئی نور اللہ کے حوالے کر دیا ،دونوں پولیس اہلکاروں نے میرے بیٹے کو ایک ماہ بارہ دن نجی ٹارچر سیل میں رکھا ،دونوں پولیس اہلکاروں کے ساتھ عامر حیات اور دو نامعلوم افراد آتے جبکہ پولیس اہلکار تشدد کر کے چلے جاتے،مدعی نے مزید موقف اپنایا کہ سب انسپکٹر لیاقت علی نے بیٹے کو ٹانگ پر گولی ماری جس کا علاج وہ کسی اپنے جاننے والے سے کرواتا رہا تاہم گولی ٹانگ ہی میں پھنسی رہ گئی اور پولیس اہلکاروں نے کار کا نمبر بھی JS701لگا دیا اور بیٹے کو جیل بھیج دیا ،ذرائع نے مزید ”اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار.

25 فروری 2015ء “ کو بتایا کہ عدالتی حکم پر جیل میں قید حسن جاوید کا میڈیکل پمز ہسپتال سے کرایا گیا جس میں ثابت ہو گیا کہ اس کی ٹانگ میں گولی پھنسی ہوئی ہے جبکہ موٹروے پولیس کے ریکارڈ سے بھی سب انسپکٹر لیاقت علی اور اے ایس آئی نور اللہ کے حوالے کیے جانے کے شواہد فراہم کیے گئے ،ترنون پولیس نے اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف مقدمہ درج تو کرلیا مگر ایس پی صدر نے مقدمہ کے مدعی پر صلح کے لیے دباؤ ڈلان شروع کر دیا،پولیس ذرائع کایہ بھی کہنا ہے کہ ایس ایچ او گولڑہ انسپکٹر محبوب احمد کے مقدمہ میں نامزد سب انسپکٹر کے ساتھ گہرے مراسم ہیں یاد رہے کہ مقدمہ میں نامزد سب انسپکٹر کے خلاف قبل ازیں بھی متعدد انکوائریاں اور عدالتی درخواستیں دائر ہو چکی ہیں جبکہ سب انسپکٹر قتل کے مقدمہ کی تفتیش میں قبل ازیں نوکری سے برخاست ہو چکا تھا بعدازاں دوبارہ بحال ہو کر ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے۔