جماعةالدعوة نے آپریشن ضرب عضب کو دہشت گردی کے خلاف موثر قرار دیا،

فتنہ تکفیر نے ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے ، اسلام دہشت گردی نہیں امن و سلامتی کا دین ہے،کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلاوجہ کسی کافر کا بھی قتل کرے، دین کا علم نہ رکھنے والے ان ناسمجھ لوگوں کی غلط حرکتوں کی وجہ سے صلیبیوں و یہودیوں کو اسلا م کو بدنام کرنے کا موقع مل رہا ہے ، مشترکہ بیان

بدھ 25 فروری 2015 20:58

اسلام آباد( اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 25 فروری 2015ء) جماعةالدعوة سے تعلق رکھنے والے مختلف علماء کرام نے آپریشن ضرب عضب کو دہشت گردی کے خلاف موثر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فتنہ تکفیر نے ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے ، اسلام دہشت گردی نہیں امن و سلامتی کا دین ہے،کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلاوجہ کسی کافر کا بھی قتل کرے،دشمنان اسلام کی یہ پرانی خواہش تھی کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کا خون بہائیں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کریں،آج بعض لوگ ان کے ہاتھوں میں کھیل کر ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری کر رہے ہیں،دین کا علم نہ رکھنے والے ان ناسمجھ لوگوں کی غلط حرکتوں کی وجہ سے صلیبیوں و یہودیوں کو اسلا م کو بدنام کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔

اپنے مشترکہ بیان میں مختلف اہلحدیث علماء کرام نے کہا ہے کہ دشمنان اسلام کی پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کا قتل کرتے رہیں اور انہیں اپنے مذموم ایجنڈے پورے کرنے کا موقع مل سکے۔

(جاری ہے)

ان علما کرام میں مولانا سعید طیب بھٹوی ، مفتی عبدالباسط ، مولانا ابو عبدالرب، مولانا عبداللہ حنیف ،مولانا ڈاکٹر سیف اللہ عسکری، پروفیسر یوسف غفاری اور مولانا عبداللہ حنیف شامل ہیں انہوں نے کہا کہ یہودیوں و صلیبیوں نے ماضی میں بھی میدانوں میں شکست پر مسلمانوں میں ہمیشہ فتنہ تکفیر پروان چڑھایا۔

حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کو بھی اسی فتنہ کے نتیجہ میں شہید کیا گیا اور مسلمانوں کی فتوحات کے سلسلے رک کر رہ گئے تھے۔انہوں نے کہاکہ علماء کرام شرعی دلائل کے ساتھ فتنہ تکفیر واضح کریں اور نوجوانوں کو کفار کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچائیں تا کہ قتل و غارت گری کا سلسلہ رکے اور امت کی اصلاح ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا یہی طریقہ تھا کہ وہ غلطیوں کی اصلاح کرتے تھے۔

جب تک علماء کرام اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرتے رہے ان کے مسائل حل ہوتے گئے لیکن جب مسلمان کو کافر قرار دینے کے فتوے آئے اور فرقہ واریت میں تشدد کا رنگ بھر گیا تو مسلمان ایک دوسرے کے خون کے درپے ہو گئے جس کا صلیبیوں،یہودیوں اور ہندووٴں نے فائدہ اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے فتوے دیے گئے جن سے نوجوانوں کی غلط رہنمائی ہوئی اور وہ قتل و غار ت گری کا شکار ہوئے۔

آج یہ معاملہ انتہا تک پہنچا ہوا ہے مگر مسلمان ملکوں کی حکومتوں نے اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ سب سے پہلی ذمہ داری حکمرانوں کی ہوتی ہے کہ وہ خون ناحق روکیں۔ مجرموں کو پکڑ کر سزائیں دیں اور لوگوں کی اصلاح کریں لیکن اگر حکومتیں اس حوالہ سے اپنی ذمہ داری ادا نہ کر رہی ہوں تو پھر علما کرام جو انبیاء کے وارث ہیں‘ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کو صحیح دین سمجھائیں مگر ایسا نہیں کیا جارہا۔

علماء کرام نے مختلف احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کہ کسی مسلمان کیلئے دوسرے مسلمان کا قتل تو درکنار اس کی جانب ہتھیار کا رخ کرنا بھی حرام ہے۔ اسلام نے ایک مسلمان کے جان و مال اور عزت کی حرمت کو مکہ شہر کی حرمت کی طرح قرار دیا ہے۔ آج بعض لوگ جس کو چاہتے ہیں پہلے کافر قرار دیتے ہیں اور پھر اس کے قتل کا فتویٰ جاری کر دیتے ہیں۔صلیبیوں ،یہودیوں اور ہندووٴں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ان لوگوں نے پاکستان کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اللہ کے دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا بچاوٴ اسی میں ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں اور صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ جس سے مسلم خطوں و علاقوں پر ان کے قبضے برقرار رہ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلمان ملکوں میں کسی پر کفرکے فتوے لگا کر خون بہانا جائز نہیں ہے۔کسی مسلمان ملک میں اگر کسی کافر کوبھی بلا وجہ قتل کیا جائے گا تو اس کی بھی اسلامی شریعت نے سزا مقرر کی ہے۔جو دین اسلام غیر مسلموں کے جان و مال کی بھی اس قدر حفاظت کرتا ہے اس میں کسی مسلمان کو کافر قرار دیکر قتل کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے

متعلقہ عنوان :