وفاقی دارالحکومت کے سرکاری ہسپتال پولی کلینک میں خون چور مافیا کا انکشاف ،

چوری شدہ خون کے بیگ ہسپتال میں موجود ایمرجنسیی ،سرجیکل وارڈ ،میڈیکل وارڈ ،ڈائیلائسس سینٹر ودیگر پرائیویٹ ہسپتالوں کو فروخت،ڈیوٹی پر موجود عملہ ڈاکٹرز کے نام پر بوکس انٹریاں اور پرچی بنا کر خون غائب کردیتے ہیں

بدھ 25 فروری 2015 20:45

اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 25 فروری 2015ء ) وفاقی دارالحکومت کے سرکاری ہسپتال پولی کلینک میں خون چور مافیا کا انکشاف ہواہے ۔چوری شدہ خون کے بیگ ہسپتال میں موجود ایمرجنسیی ،سرجیکل وارڈ ،میڈیکل وارڈ ،ڈائیلائسس سینٹر ودیگر پرائیویٹ ہسپتالوں کو فروخت کیا جاتا ہے ،ڈیوٹی پر موجود عملہ ڈاکٹرز کے نام پر بوکس انٹریاں اور پرچی بنا کر خون غائب کردیتے ہیں ۔

ذرائع کے مطابق اس دوران پولی کلینک ہسپتال کے بلڈ بینک میں ڈاکٹرز کے نام پر اب تک سیکنٹروں بوکس انٹریاں کی جا چکی ہیں ۔ دوسری جانب مریض کے رشتہ دار سے پیسوں کی وصولی کے بعد پرچی بنا کر دی جاتی ہے جس کے ذریعے اب تک سیکنٹروں خون کی بوتلیں اب تک بلڈبینک سے غائب کی جا چکی ہیں،ذرائع آن لائن اس بارے میں علم نہیں تاہم ایمرجنسی کی صورت میں خاص فارم کے ذریعے مریض کو خون فراہم کیا جاتا ہے جس کا ریکارڈ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ترجمان پروفیسر ذولکفیل اعوان ۔آن لائن کو حاصل معلومات کے مطابق حیران کن بات یہ ہے کہ پولی کلینک ہسپتال کے متعلقہ سرجیکل وارڈ ،میڈیکل وارڈ اور ڈائیلایسس سینٹر کے ڈاکٹرز ہسپتال کے بلڈ بینک میں ان کے نام سے کی جانے والی بوکس انٹریوں سے مکمل طور پر ناواقف ہیں ۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں عام لوگوں کی سہولت کے لیے بنائے گئے ہسپتال میں بلڈبینک اور ہسپتال میں موجود دیگر عملہ میبنہ طور پر چوری شدہ خون ایمرجنسی ،وارڈ اور جگہوں پر موجودمریضوں کے لواحقین کو 5سو روپے سے لے کر 15سو روپے تک فی بوتل فروخت کرتے ہیں ۔

ذرائع کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں قائم سرکاری ہسپتال میں مذکورہ مکروہ دھندہ ماتحت عملے کی ملی بھگت سے کئی سالوں سے جاری ہے ۔ ملک کے دور دراز علاقوں سے آئے مریضوں کے لواحقین کو فوری طورپر خون کی فراہمی یقینی بنانے کا کہا جاتا ہے جیسے بسا اوقات استعمال میں نہیں لایا جاتا اور زائد المیعاد خون کو بغیر انٹری کے بلڈ بینک میں جمع کرلیا جاتا ہے جبکہ بعد ازں بلڈ بینک میں موجود ایسی زائد المیعاد خون کو ہسپتال میں موجود ایمرجنسی مویضوں کے لواحقین کو فروخت کر دیا جا تا ہے ۔

پولی کلینک ہسپتال سرجیکل آئی سی یو میں زیر علاج مریض کے رشتہ دار نے نام نہ بتانے کی شرط پر آن لائن کو بتایا کہ چند روز قبل مریض کی شوگر کم ہونے کے باعث حالت خراب ہو گئی جس پر ڈاکٹرزاور عملہ کی جانب سے فوری طور پر چار خون کی بوتلیں مہیا کرنے کا کہا گیا انہیں دو خون کی بوتلیں دی گئیں جبکہ دو بعدازں دینے کا کہا گیا جو کہ اسی دن شام 5بجے فراہم کردی گئی تاہم پولی کلینک ہسپتال انتظامیہ کی نااہلی کے باعث چار میں سے ایک بھی بوتل مریض کو نہیں لگائی گئی جبکہ بعد ازں وہ خون کی بوتلیں بلڈبینک میں واپس جمع کروانے کا کہا گیا ۔

انہوں نے اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرز اور عملہ خون کی فوری فراہمی یقینی بنانے پر تو بہت زور دیتے ہیں تاہم وہ بوتلیں مریض کو نہیں لگائی جاتی اگر ایسا ہی کرنا ہو تا ہے تو مریض اور اس کے لواحقین کو بے وجہ کیوں پریشان کیا جاتا ہے ۔ذرائع نے مزید بتایا کہ ملک کے دور دراز علاقوں سے آئے سادہ لوح مریض اور ان کے لواحقین سے سرکاری ہسپتال میں موجود مافیا خون ٹیسٹ کرنے کے نام پربھی غیرقانونی طور پر پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔

آن لائن کے رابطہ کرنے پر پولی کلینک ہسپتال کے ترجمان پروفیسر ذولکفیل اعوان نے اپنے موقف میں کہا کہ زیادہ تر پڑھنے لکھنے کے کاموں میں مصروف رہتا ہوں اس بارے میں علم نہیں تاہم ایمرجینسی کی صورت میں خاص فارم کے ذریعے مریض کو خون فراہم کیا جاتا ہے جس کا ریکارڈ ہوتا ہے تاہم واقعہ کی انکوائری کروں گا ۔