سینٹ خزانہ کمیٹی نے چیئرمین نجکاری کمیشن کی عدم موجودگی میں قومی اداروں کی نجکاری کو شفاف بنانے کے لئے سینیٹر صغریٰ امام کے نجکاری ترمیمی بل کی منظوری دیدی،

نجکاری کے عمل کے بعد پوسٹ آڈٹ بھی کرایا جا سکتا ہے ، اداروں کی نجکاری شفاف انداز میں مکمل ہوتی تو ملک کی مالی و اقتصادی مشکلات پر قابو پایا جا چکا ہوتا، ملکی مفاد کو مد نظر رکھا جانا چاہیے، سینیٹر نسرین جلیل

منگل 24 فروری 2015 23:18

اسلام آباد(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 24 فروری 2015ء ) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے چیئرمین نجکاری کمیشن کی عدم موجودگی میں قومی اداروں کی نجکاری کو شفاف بنانے کے لئے سینیٹر صغریٰ امام کے نجکاری ترمیمی بل کی منظوری دیدی جس کے تحت نجکاری کے عمل کے بعد پوسٹ آڈٹ بھی کرایا جا سکتا ہے ۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کی چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کی نجکاری شفاف انداز میں مکمل کر لی جاتی تو ملک کی مالی و اقتصادی مشکلات پر قابو پایا جا چکا ہوتا، سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر ملکی مفاد کو مد نظر رکھا جانا چاہیے، سینیٹر صغریٰ امام کی طرف سے قائمہ کمیٹی میں نجکاری کے حوالے سے ترمیمی بل 2013 پر شق وار بحث ہوئی،محرک سینیٹر صغریٰ امام نے کہا کہ میرے سینیٹ میں پیش کردہ بل کے حوالے سے چیئر مین نجکاری کمیشن اور سیکریٹری کمیشن کے ساتھ 3اجلاس منعقد ہو چکے ہیں اور دونوں کو ترمیمی بل پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،ترمیمی بل میں نجکاری کمیشن کے ممبر یا عہدیدار کی طرف سے قبل از وقت نجکاری کے عمل کو افشا نہ کرنے اور کنسلٹنٹ ، فنانشل ایڈوائزر کے علاوہ پوسٹ آڈٹ بھی کرنے کی ترامیم دی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے چیئر مین نجکاری کمیشن کی اجلاس میں عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کسی وزیر نے کوئی کام نہ کرنا ہو تو مصروفیت کا بہانہ بنا لیا جاتا ہے۔ کمیٹی کے رکن سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے سینیٹر صغریٰ امام کے ترمیمی بل کو قابل عمل اور بہترین بل قرار دیا۔ اجلاس میں چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے بھی مجوزہ ترمیمی بل پر ترامیم کا مسودہ پیش کیا جن میں حصص یافتگان کی رقم پچاس فیصد سے زائد اور اسے ووٹینگ شیئر کے طور پر شامل کرنے کی ترمیم پر اتفاق کیا گیاتاہم ایس ای سی پی نے بتایا کہ اس رقم سے زیادہ بھی نوٹیفائی کر سکتا ہے۔

سیکریٹری خزانہ وقار مسعود نے بتایا کہ تمام متعلقہ حلقوں کے ساتھ کمیٹی میں ترامیم پیش کرنے سے قبل طویل مشاورت کی جاتی ہے اور کہا کہ ڈی میوچلائزیشن کے تحت لاہور اسلام آباد سٹاک ایکس چینج کی ضرورت نہیں پڑتی تمام کاروباری کمپنیاں براہ راست کراچی اسٹاک ایکسچینج سے کاروبار کر رہی ہیں۔سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ جس وقت کے اے ایس بی بنک کے خلاف کاروائی کی گئی اس وقت پنجاب بنک کی ایکویٹی ایک ارب تھی، کسب بنک چھ ارب اور فیصل بنک کی ایکویٹی پانچ ارب تھی جس پر سیکرٹری خزانہ نے سینیٹر الیاس بلور سے کہا کہ آ پ کی بات درست نہیں۔

سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ کمپنیوں پر لسٹنگ کیلئے دباو نہ رکھا جائے یہ مسئلے کا حل نہیں اور غیر اسلامی بھی ہے اگر کسی کا گھر بڑا ہے تو کیا کہا جائیگا کہ عوام کو بھی حصہ دیں ایس ای سی پی کے افسران نے آگاہ کیا کہ یہ صرف سیکورٹی کمپنیوں کے لئے نہیں ہے اور اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوااور کہا کہ سٹاک ایکسچینج کو ہدایت کی جاتی ہے کہ یہ بڑی کمپنی ہے رجسٹر کر لی جائے۔

سینیٹر صغریٰ امام نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کمپنیوں کا پوسٹ آڈٹ نہیں ہوتا اگر پوسٹ آڈٹ کا نظام رائج ہوتا تو نجکاری کے عمل پر سوالات نہ اٹھتے۔ سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ آڈیٹر جنرل کے علاوہ باہر سے بھی آڈٹ کیا جانا چاہیے، نجکاری کے عمل میں اب بھی حسب منشا والی بات چل رہی ہے پچھلے 67سالوں سے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں اسٹاک ایکسچینج نہیں ہیں، نرم شرائط پر کراچی سٹاک ایکسچینج کی برانچیں بنائی جائیں۔

سینیٹر رفیق راجوانہ نے نجکاری بل کی ترامیم کی حمایت کی اور کہا کہ جہاں کہیں بھی قانونی کمزوری یا سقم ہو اسے مزید سخت کیا جائے ۔کمیٹی کا اجلاس کل بھی منعقد ہو گا جس میں وزارت پڑولیم اور وزارت داخلہ کے افسران کو بھی طلب کر لیا گیا ہے ۔کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز الیاس بلور، عثمان سیف اللہ ، حاجی محمد عدیل ، اسلام الدین شیخ ، سلیم ایچ مانڈوی والا، ملک محمد رفیق راجوانہ ، صغریٰ امام کے علاوہ سیکریٹری خزانہ وقار مسعود، چیئر مین ایس ای سی پی ظفر الحق حجازی ، انور منیر ڈی جی نجکاری کمیشن بھی موجود تھے ۔

متعلقہ عنوان :