جسٹس (ر)رانا بھگوان داس کی آخری رسومات کراچی میں ادا کردی گئیں،پرانا گولیمار میں واقع شمشان گھاٹ میں ان کی چتا جلائی گئی،

چتا کو آگ بیٹے کیلاش کمار، رانا مکیش کمار، بھائی رانا اشوک سمیت دیگر قریبی رشتہ داروں نے لگائی، دو بیٹے، ایک بیٹی اور اہلیہ سوگواران میں شامل، پاکستان اور اقلیتی برادری ایک ایماندار شخص سے محروم ہوگئی، والد کی ارتھیاں ا وصیت کے مطابق بھارت میں جا کر دریائے گنگا میں بہاؤں گا ، بیٹا ، رانا بھگوان داس کو چیف الیکشن کمشنر نامزد کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کا متفق ہونا ایمانداری کی عکاسی کرتا ہے، رکن قومی اسمبلی رمیش کمار

پیر 23 فروری 2015 23:30

کراچی (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار 23 فروری 2015ء) سپریم کورٹ کے سابق قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس کی آخری رسومات پیر کی شام پرانا گولیمار میں واقع شمشان گھاٹ میں ادا کی گئی۔ ان کی آخری رسومات میں کسی حکومتی، سیاسی اور وکلاء تنظیم کے نمائندے نے شرکت نہیں کی تاہم چند ریٹائرڈ ججز نے آنجہانی جسٹس کے گھر جاکر تعزیت کی ۔ان میں وفاقی شریعت کورٹ کے سابق ججز آغا رفیق، سابق چیف جسٹس (ر)ناصر اسلم زاہد اور دیگر شامل تھے۔

ان کی ارتھی کو پیر کی سہ پہر کراچی کے معروف قبرستان میوہ شاہ سے متصل شمشان گھاٹ لایا گیا جو کہ کراچی کے خطرناک علاقے لیاری میں واقع ہے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے اس موقع پر حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے ان کی چتاکو ان کے بڑے بیٹے رانا کلاش چند نے آگ دی انتم سنسکار کی رسم میں آنجہانی جج کے عزیزو اقارب اور دوستوں نے شرکت کی بھگوان داس 73 برس کی عمر میں پیر کی صبح انتقال کر گئے تھے۔

(جاری ہے)

وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور نجی ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔ رانا بھگوان داس نے سوگواران میں دو بیٹے اور ایک بیٹی اور اہلیہ کو چھوڑا ہے ۔ اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے رانا بھگوان داس کے بڑے بیٹے کیلاش کمار نے کہا کہ ان کے والد ایک ایماندار شخص اور پاکستان سے مخلص تھے۔ آج پاکستان اور اقلیتی برادری ایک ایماندار شخص سے محروم ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں اپنے والد کی ارتھیاں ان کی وصیت کے مطابق بھارت میں جا کر دریائے گنگا میں بہاؤں گا۔ اس موقع پر آل پاکستان ہندو کونسل کے صدر اور مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے جسٹس(ر)رانا بھگوان داس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ رانا بھگوان داس نے ہمیشہ اقلیتوں کو پاکستان کی خدمات کا سبق دیااور ہمیشہ ضمیر کی بات سننے کا درس دیا۔

رانا بھگوان داس جیسی ایماندارشخصیت پوری قوم کیلئے بجا طور پررول ماڈل کا درجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے مرحوم رانا بھگوان داس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ رانا صاحب نے ہمیشہ ملک و قوم کی بہتری میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ رانا بھگوان داس کو چیف الیکشن کمشنر نامزد کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کا متفق ہونا انکی ایمانداری کی عکاسی کرتا ہے۔

ڈاکٹر رمیش کمارکے بقول رانا بھگوان داس نے معذرت کی وجہ اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنا بتائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہندو کونسل نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ لیاقت نہرو سمجھوتے کے تحت رانا بھگوان داس کو متروکہ وقف املاک بورڈ کا سربراہ مقرر کیا جائے۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مرحوم رانا بھگوان داس کا ماننا تھا کہ انسان کے کام اسکے کیے گئے اچھے کام ہی آتے ہیں اور وہی ہوتا ہے جو مالک کی مرضی ہوتی ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر رمیش کمار نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کیلئے رانا بھگوان داس کے مشن کو جاری رکھیں گے۔واضح رہے کہ رانا بھگوان داس پاکستان کے نہایت قابل احترام ججز میں سے ایک تھے۔ سابق صدرجنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پیدا ہونے والے عدالتی بحران کے دوران انہوں نے 2007ء میں سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے فرائض انجام دئیے۔

علاوہ ازیں 2005ء سے 2006ء کے دوران جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بیرون ملک دوروں پر گئے تو بھی رانا بھگوان داس نے مختصر مدت کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فرائض سنبھالے تھے۔رانا بھگوان داس پہلے ہندو اور دوسرے غیر مسلم فرد تھے، جنہوں نے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔بطور جج ریٹائرڈ ہونے کے بعد 2009ء میں انہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن آف پاکستان کا چیئرمین بنادیا گیا۔

گزشتہ سال رانا بھگوان داس کو چیف الیکشن کمیشن بنانے پر حکومت اور حزبِ اختلاف کا اتفاق ہوگیا تھا تاہم انہوں نے یہ عہدہ سنبھالنے سے معذرت کرلی تھی۔جسٹس رانا بھگوان داس 20 دسمبر 1942ء کو سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں ہندو راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔انہوں نے قانون اور اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔ 1965ء میں انہوں نے بار کونسل میں شمولیت اختیار کی اور دو سال بعد لاڑکانہ کے معروف وکیل عبدالغفور بھرگڑی کے ساتھ قانون کی پریکٹس کرنے لگے۔

بعد میں وہ سیشن جج بن گئے اور اس کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پرفائز کیے گئے رانا بھگوان داس کو 1994ء کے دوران سندھ ہائی کورٹ میں ترقی دی گئی۔ 1999ء میں ان کی عدالت عظمیٰ میں تقرری کو چیلنج کردیا گیا۔ ان کے اور حکومت پاکستان کے خلاف ایک آئینی پٹیشن (1069/1999) دائر کی گئی۔ اس پٹیشن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جسٹس رانا بھگوان داس پر مشتمل عدالتی بینچ کو غیر آئینی قرار دیا جانا چاہیے، اس لیے کہ رانا بھگوان داس غیرمسلم ہیں اور اعلیٰ عدالتوں میں صرف مسلمان جج ہی مقرر کیا جاسکتا ہے۔

اس پٹیشن کو مسترد کردیا گیا تھا، اور ہائی کورٹ کے ججوں اور دیگر معروف وکلاء کی جانب سے درخواست گزار کی مذمت کی گئی تھی۔2000ء میں انہوں نے پرویز مشرف کی حکومت کے پی سی او کے تحت سپریم کورٹ میں شمولیت اختیار کی۔رانا بھگوان داس پاکستان کے آئین اور اس کے قانونی نظام کی حرمت پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں تمام مذہبی برادریوں کیلئے قانون برابر ہے ادھر2007 میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار پر نظر بند رہنے والے رانا بھگوان داس کے انتقال پر صدر، وزیر اعظم سمیت سیاسی قیادت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خدمات پر انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا۔

جسٹس ریٹائرڈ رانا بھگوان ڈاس کے انتقال پر صدر مملکت ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف سمیت کئی رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ رانا بھگوان داس کی عدلیہ کے حوالے سے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے بھی رانا بھگوان داس کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ رانا بھگوان داس نے انصاف کی فراہمی کیلئے گراں قدرخدمات انجام دیں۔سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جسٹس ریٹائرڈ رانا بھگوان داس کے انتقال پراظہارافسوس کیا۔امیرجماعت اسلامی سراج الحق اورلیاقت بلوچ نے بھی رانا بھگوان داس کے انتقال پر غم و دکھ کا اظہار کیا۔