سینیٹ قائمہ کمیٹی کا فاٹا میں ترقیاتی کاموں کیلئے سرکاری فنڈز اور بین الاقوامی اداروں کی امداد کے استعمال کی تفصیلات پر عدم اطمینان کا اظہار، تمام منصوبوں کا خود جائزہ لینے کا فیصلہ،

2008میں انسان تو کیا فاٹا میں جانور بھی موجود نہ تھے کون سے کاشتکاروں میں کھاد اور بیج تقسیم کئے گئے ، سینیٹر صالح شاہ کا سوال، سرکار اور بیوروکریسی کو متاثرہ علاقوں میں تعلیم ، صحت اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کیلئے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں،کمیٹی کی سفارش

پیر 23 فروری 2015 23:25

اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار 23 فروری 2015ء) سینیٹ کی ریاستوں اور سرحدوں کے بارے میں قائمہ کمیٹی نے فاٹا میں ترقیاتی کاموں کیلئے سرکاری فنڈز اور بین الاقوامی اداروں کی امداد کے استعمال کی تفصیلات پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیااور تمام منصوبوں کا خود جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیٹی کے چیئر مین سینیٹر صالح شاہ نے صرف ایک ماہ میں فاٹا کے آپریشن کی وجہ سے مکمل خالی ہونیوالے علاقوں میں ایک کروڑ 76لاکھ کے بیج اور کھاد کی تقسیم عورتوں اور کاشتکاروں کی تربیت پر کروڑوں کے اخراجات کی تفصیلات پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی عشروں سے دہشت گردی کے شکار فاٹا میں سکول ،کالج بند ہو چکے ہیں لوگ در بدر ہو چکے ہیں ۔

2008میں انسان تو کیا فاٹا میں جانور بھی موجود نہ تھے کون سے کاشتکاروں میں کھاد اور بیج تقسیم کئے گئے اور کئی صفحات کی بریفنگ پیپر میں اخراجات کس طرح ظاہر کئے گئے ۔

(جاری ہے)

سرکار اور بیوروکریسی کو متاثرہ علاقوں میں تعلیم ، صحت اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کیلئے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں ۔کمیٹی کا اجلاس پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر صالح شاہ کی صدارت میں ہوا۔

سینیٹر صالح شاہ نے صرف ایک بین الاقوامی این جی او کری ایٹو ایسوسی ایٹ کے ذریعے صحت ، تعلیم اور پانی کے منصوبوں پر کام کرانے کو بیورو کریسی کی نااہلی قرار دیااور کہا کہ غربت افلاس اور ناگفت بہ حالات کو مد نظر رکھ کر فاٹا پر خصوصی توجہ دی جائے ۔سینیٹر ہلا ل الرحمان نے بھی مہمند ایجنسی میں 262ترقیاتی سکیموں پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ متعلقہ این جی او کے ذمہ داران کو کمیٹی میں طلب کیا جائے ۔

سینیٹر احمد حسن اور سینیٹر ہلا ل الرحمان نے مہمند ماربل سٹی کیلئے بجلی کی سہولت کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے ۔سینیٹر ہلا ل الرحمان نے کہا کہ وارسک سے شدید گرمی کے مہینوں میں بجلی کی پیداوار 250میگا واٹ سے کم ہو کر صرف 95رہ جاتی ہے اور نیشنل گرڈ سے بھی بجلی حاصل کرنا مشکل ہے ۔بجلی کا بندو بست پہلے کیا جانا چاہیے تھا ۔سینیٹر حاصل بزنجو نے مہمند ماربل سٹی کو پیسڈک کے حوالے کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ پیسڈک کے پاس صرف کوئلے کی کانوں کا تجربہ ہے انفراسٹرکچر بنانے کیلئے پیسڈکے پاس نہ مشینری ٹیکنیکل عملہ اور انجینئرز ہیں ۔

فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے یونس جاوید اور ہمایوں خان نے بھی حاصل بزنجو کے خدشات کی تائید کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ کراچی میں موجود نیپ کی کرایا دار کمپنی پیسڈک ہے ۔ایڈیشنل سیکریٹری وزارت طارق حیات خٹک نے کہا کہ فاٹا میں ایک دہائی سے جو آفات آئیں۔ہزاروں خاندان بے گھر ہو کر خیموں میں زندگی بسر کر رہے ہیں علاقے کو ترقی دے کر ماحول بہتر کیا جا سکتا ہے اور کہا کہ وفاقی حکومت کے جاری کردہ سالانہ فنڈز سے فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارتی کا دس فیصد حصہ بھی بر وقت نہیں ملتا۔

جو مل جاتا ہے ضائع ہو جاتا ہے یا ہڑپ ہو جاتا ہے ۔وزارت کے سینئر افسر امتیاز کی طرف سے مختلف سکولوں کی عمارتوں میں توسیع اور مرمتی کے حوالے سے دی گئی اخراجات کی تفصیل پر بھی کمیٹی شدید برہم ہوئی اور قرار دیا گیا کہ 2010میں آپریشن کے دوران بند سکولوں پر اخراجات ظاہر کئے جا رہے ہیں ۔کمیٹی اراکین کے مشورہ سے چیئر مین کمیٹی نے مارچ کے پہلے ہفتے میں تمام ترقیاتی سکیموں کے موقع پر معائنے کا فیصلہ کیا۔

چیئر مین کمیٹی نے 2008میں نوکریاں پیدا کرنے کی سکیم کے نام پر تین دفعہ 44لاکھ 75لاکھ اور چھیالیس لاکھ خرچ کرنے پر بھی شیدید غصے کا اظہار کیا اور تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 2008میں انسان تو کیا فاٹا میں جانور بھی موجود نہ تھے کون سے کاشتکاروں میں کھاد اور بیج تقسیم کئے گئے اور کئی صفحات کی بریفنگ پیپر میں اخراجات کس طرح ظاہر کئے گئے ۔ سینیٹر ہلا ال ارحمان اور سینیٹر احمد حسن نے این جی او اور یو ایس ایڈ کے ذمہ داران کو اگلے اجلاس میں طلب کرنے کی تجویز دی فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے یونس اور ہمایوں نے کہا کہ مہمند ماربل سٹی 308ایکڑ زمین پر مشتمل ہے کل 295پلاٹ ہونگے جن میں 8کینال کے 208چار کینال کے 30اور دو کینال کے 5پلاٹوں کا قبضہ دینا شروع کر دیا گیاہے ۔

بجلی کے گرڈ سٹیشن کی اہلیت 56میگا واٹ ہے 10کلو میٹر سٹرکیں مکمل ہیں ۔سینیٹر ہلا ل الرحمن نے کہا کہ ورسک میں شدید گرمی کے مہینوں میں بجلی کی پیدوار میں شدید کمی ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے قبائلی علاقوں میں چھ میگا واٹ کی ضرورت پر صرف دو یا تین میگا واٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے ۔ پاور ہاوٴس میں ایک لائن بھی موجود نہیں ماربل سٹی میں سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی کمی کا ہوگا۔

سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ تین سو ماربل فیکٹریوں میں اربوں کی سرمایہ کاری ہو گی ۔ بجلی کا متبادل بھی موجود نہیں بجلی فراہی کے لئے سنجیدہ گوششیں کی جائیں ۔ پولیٹیکل ایجنٹ وقار احمد خان نے انکشاف کیا کہ پیسڈک کمپنی جہانگیر خان ترین نے اپنی وزارت کے دوران بنائی اصل فرم نیپ کا دفتر کراچی میں ہے ماربل سٹی میں پیسڈک کا نام کاغذات میں استعمال ہو رہا ہے ۔

فرینٹیر کور کے کرنل مکرم نے آگاہ کیا کہ قبائل کی چھتیس قوموں کی سات سو پینتیس پلاٹون کی نفری موجود ہے پہلے سپاہی کی بھرتی کیلئے تعلیم مڈل تھی جو میٹرک کر دی گئی ہے آپریشن کی وجہ سے آدھے سے زیادہ سکول بند ہوئے تو میٹرک امیدوار دستیاب نہیں ۔ وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری سلیمان خان نے کہا کہ تین چار ماہ میں اضافی ونگز بنا کر بھرتیاں شروع کی جار ہی ہیں تعلیم کی بجائے آبادی کے تناسب سے بھرتیاں کی جانی چاہئیں ۔

جنگجو قبائل مخافظین پاکستان ہیں ۔ کرنل مکرم نے انکشاف کیا کہ قبائلی علاقوں کی بندو بستی علاقوں سے امید وار بڑھ گئے ہیں کلرک کی ایک آسامی کے لئے مروت قبیلے کے دس ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس امیدواروں نے امتحان دیا۔ ڈی آئی جی ایف سی غنی خان نے کہا کہ 26ہزار نفری پر مشتمل 547پلاٹونوں میں سے 45سندھ میں تعینات ہیں ۔اسلام آباد میں چھیالیس ، گلگت بلتستان میں چھ فاٹا میں 94جنوبی وزیرستان میں ایف ڈبلیو او کے ملازمین کی خفاظت کیلئے بھی مامور ہیں سندھ 45پلاٹونوں کی نفری کو پورا کرنے کیلئے نئی بھرتیاں کی جائیں گی اور کہا کہ قبائلی علاقہ جات کے نوجوانوں کو تعلیم میں دی گئی سہولات برقرار رکھی جائے ۔ وزارت داخلہ کو بھی 2008سے قبل مڈل تعلیم کی پابندی کی تجویز دی ہے ۔

متعلقہ عنوان :