خیبر پختونخوا کے محکمہ انتظامیہ ، تعلیم ، صحت ، داخلہ ، خزانہ اور مواصلات و تعمیرات سمیت 1515مختلف سرکاری محکموں میں 65 ارب 30کروڑ 80لاکھ روپے کی مالی بدعنوانیوں انکشاف

جمعرات 29 جنوری 2015 20:29

پشاور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 29 جنوری 2015ء) خیبر پختونخوا کے محکمہ انتظامیہ  تعلیم  صحت  داخلہ  خزانہ اور مواصلات و تعمیرات سمیت 15مختلف سرکاری محکموں میں اختیارات کے ناجائز استعمال اختیارات سے تجاوز کرنے  سرکاری فنڈز کے غلط استعمال اور ” جنرل فنانشل رولز “ ( جی ایف آر ) کی کھلی خلاف ورزی کے باعث ان محکموں میں 65 ارب 30کروڑ 80لاکھ روپے کی مالی بدعنوانیوں، بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے جس کے باعث سرکاری خزانہ کو بھاری مالی نقصان پہنچایا گیا اس بات کا انکشاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے خیبر پختونخوا کے سرکاری محکموں سے متعلق جاری کی جانیوالی مالی سال 2012-13 کے آڈٹ رپورٹ میں کیا گیا ہے ۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق تین کیسوں میں 8.20 ملین روپے خرد برد اور چوری کرنے کے علاوہ اس کا غلط استعمال کیا گیا ۔

(جاری ہے)

45 کیسوں میں سرکاری خزانہ کو 3 ارب 64 کروڑ 36 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔47 کیسوں میں 17491.53 ملین روپے اختیارات سے تجاوز کرکے خرچ کئے گئے ۔7 کیسوں میں 40,204.50 ملین روپے کے اخراجات کا ریکارڈ ہی پیش نہیں کیاگیا ۔ 10 کیسوں میں 52.97 ملین روپے کی اضافی ادائیگی لوٹ لی گئی ۔

3 کیسوں میں 2557.79 ملین روپے حد سے تجاوز کرکے خرچ کئے گئے ایک کیس میں حکومت کے 1286.43 ملین روپے غیر ضروری طور پر روک دیئے گئے ایک کیس میں حکومت کے 9.50 ملین روپے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کئے گئے جبکہ ایک کیس میں 20.39 ملین روپے اکاؤنٹ میں ایڈ جسٹ نہیں کئے گئے رپورٹ کے مطابق 2011-12 کے د وران محکمہ انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کے صوابدیدی فنڈز سے مختلف مشکوک افراد کو 2.55 ملین روپے کی ادائیگی کی مذکورہ افراد سے نہ تو وصولی کی رسید لی گئی نہ ہی ان کے شناختی کارڈ کی کاپیاں لی گئی مگر کسی کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ۔

اسی طرح محکمہ انتظامیہ نے 190.15 ملین روپے کی ناکارہ گاڑیاں نیلام کیں مگر محکمہ اس کا ریکارڈ پیش کرنے میں ناکام رہا ۔ اسی طرح محکمہ انتظامیہ نے دو سرکاری ہیلی کاپٹروں کی دیکھ بھال کے لئے ایک ایوی ایشن کمپنی کے ساتھ 41.94 ملین روپے کامعاہدہ کیا جو رولز کے خلاف تھا اس کے بعد مذکورہ کمپنی کو ہیلی کاپٹرز کی دیکھ بھال کیلئے مزید 4.56 ملین روپے کی ادائیگی کرکے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا گیا ۔

اسی طرح 2011-12 کے دوران اس وقت کے وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کو لنچ اور ریفرشمنٹ وغیرہ کیلئے ایک لاکھ 52 ہزار روپے روزانہ کے حساب سے 40.61 ملین روپے خرچ کئے جو حد سے تجاوز تھی ۔ اسی طرح سرکاری اجلاس کے لئے لنچ بکس مینگوانے پر 1.73 ملین روپے خرچ کئے گئے جبکہ رولز کے مطابق سرکاری اجلاس کے دوران فی کس 150 روپے خرچ کئے جاسکتے ہیں اسی طرح محکمہ انتظامیہ نے 2011-12 کے دوران خیبر پختونخوا ہاؤس نتھیاگلی اور نتھیا گلی میں وزیراعلیٰ کی رہائش کی کچن پر 9.13 ملین روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی ۔

اسی طرح محکمہ زراعت نے سال 2010-11 کے دوران 9.50 ملین روپے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائے جبکہ اسی محکمے نے پاک جرمن ووڈورکنگ سنٹر کو 2 سو ڈسپنسریز کے لئے فرنیچر کی فراہمی کیلئے 6.99 ملین روپے کی ادائیگی کی جو حد سے تجاوز تھی ۔ اسی طرح اوپن ٹینڈر کے بغیر 3.96 ملین روپے کی فروٹ کے پودے خریدے گئے جو رولز کی خلاف ورزی تھی ۔ اسی طرح محکمہ مواصلات و تعمیرات نے سال 2010-11 کے دوران ایک ٹھیکیدار کو 6 فیصد انکم ٹیکس کٹوتی کے بغیر 398.34 ملین کی ادائیگی کرکے سرکاری خزانے کو 23.90 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا اسی طرح محکمہ نے ڈی آئی خان میں اوپن ٹینڈر طلب کئے بغیر 9.68 ملین روپے کے اخراجات کرکے بے قاعدگی کا ارتکاب کیا۔

اسی طرح محکمہ مواصلات نے 2008-09 کے دوران ایک ٹھیکیدار کو 14.80 ملین روپے کی اضافی ادائیگی کی ایک اور کیس میں اسی محکمے نے 8 ٹھیکیداروں کو 90.83 ملین روپے کی ادائیگی کے باوجود 7.52 ملین روپے کی اضافی ادائیگی کی۔اسی طرح محکمہ تعلیم میں مہنگی کتابیں خرید کر سرکاری خزانے کو 1.16 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔ اسی طرح اس محکمے نے سمال انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بورڈکو سکولوں کے لئے فرنیچر کی سپلائی کیلئے 32.79 ملین روپے کی ادائیگی کی گئی مگر 17.18 ملین روپے کی فرنیچر فراہم نہیں کی گئی جبکہ محکمے کی جانب سے ایک فیصد کے حساب سے ایس آئی ڈی پی پر 171.811 ملین کی پینلٹی بھی عائد نہیں کی گئی۔

اسی طرح ہزارہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر 2009-10 کے دوران ٹھیکیداروں کو مختلف تعمیراتی کاموں کیلئے 280.44 ملین روپے کی ایڈوانس ادائیگی کی مگر بعد میں 191.08 ملین روپے کی ریکوری نہیں کی گئی۔ اسی طرح 2009-10 کے دوران وی سی ہزارہ یونیورسٹی نے اختیارات سے تجاوز کرکے یونیورسٹی ملازمین کو غیر پرکشش علاقہ الاؤنس کی مد میں 39.10 ملین روپے کی ادائیگی کی ۔

اسی طرح محکمہ ماحولیات نے 2010-11 کے دوران فارسٹ ڈویلپمنٹ کارپوریشن سے 12.18 ملین روپے کی ریکوری نہیں کی ۔ اسی طرح محکمہ ایکسائز نے 2009-10 کے دوران محکمے کے لئے آرمز اینڈ ایمونیشن کی خریداری میں سرکاری خزانے کو 1.11 ملین روپے کا نقصان پہنچایا ۔اسی طرح محکمہ خزانہ نے 2010-11 میں مختلف بنکوں سے 39734.69 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی مگر بار بار یادہانیوں کے باوجود محکمہ اس کا ریکارڈ پیش کرنے میں ناکام رہا ۔

اسی طرح محکمہ خزانہ نے 2010-11 کے دوران ایبٹ آباد کیلئے 1286.43 ملین روپے کے سٹمپ چھاپے گئے مگر سال کے دوران صرف 42.000 ملین روپے کے سٹمپ فروخت ہوسکے اور اسی طرح غیر ضروری طورپر سرکاری فنڈز کو بلاک کیاگیا۔ اسی طرح محکمہ خوراک نے ایک کیس میں مختلف پارٹیز کو لوکل خریداری کیلئے 348.93 ملین روپے کی ادائیگی کی گئی مگر اس پر3.5 فیصد کے حساب سے 12.21 ملین روپے ٹیکس کی کٹوتی نہیں کی گئی اسی طرح محکمہ صحت کی جانب سے پرنسپل خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور نے 2009-10 کے دوران مختلف اداروں سے فیس کی مدمیں 57.92 ملین روپے وصول نہیں کرسکے ۔

اسی طرح 2010-11 کے دوران ایم این سی ایچ پراجیکٹ میں اضافی بھرتی ہونیوالے ملازمین کو19.68 ملین روپے کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی۔اسی طرح محکمہ داخلہ نے 2011-12 کے دوران 161 سیاسی کارکنوں کی حفاظت پر 704 پولیس اہلکار بطور گارڈ تعینات کرکے ان کی تنخواہوں اور الاؤنس کی مد میں سرکاری خزانے کو 675.84 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا مگر مذکورہ سیاسی کارکنوں سے کوئی وصولی نہیں کی گئی ۔

اسی طرح سی سی پی او پشاور نے سال 2011-12 کے دوران سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو بطور گارڈ فراہم کردہ پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں کی مد میں 29.32 ملین روپے خرچ کئے مگر مذکورہ رقم نہ تو ریکوری کی گئی نہ ہی آڈٹ حکام کو اس کی رپورٹ فراہم کی گئی اسی طرح 2008-09 کے دوران سی سی پی او نے دو سو گاڑیاں چالو حالت میں موجود ہونے کے باوجود نجی گاڑیاں حاصل کرنے پر 5.35 ملین روپے خرچ کئے گئے جبکہ 47.0 ملین روپے گاڑیوں کے پٹرول پرخرچ کئے گئے اسی طرح محکمہ ہاؤسنگ میں سال 2010-11 میں 1200 ملین روپے اکاؤنٹ سے نکال کر لینڈ ریکوزیشن کلکٹر نے مالکان کو ادا کرنے کی بجائے مسلم کمرشل بنک میں انوسٹ کئے جو رولز کی خلاف ورزی تھی ۔

اسی طرح محکمہ آبپاشی نے 2009-10 کے دوران ہزارہ ایریگیشن ڈویژن ایبٹ آباد نے واٹر ریٹ ریکور نہ کرکے سرکاری خزانہ کو 16.43 ملین کا نقصان پہنچایا جبکہ ایگزیکٹو انجینئر سوات ایریگیشن نے 2010-11 میں 365.18 ملین روپے کے اخراجات پر6 فیصد کے حساب سے انکم ٹیکس وصول نہ کرکے سرکاری خزانے کو 21.91 ملین روپے کا نقصان پہنچایا اسی طرح محکمہ بلدیات میں 2009-10 کے دوران پراجیکٹ کلوزنگ کے بعد بقایا 22.14 ملین روپے کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی بجائے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کوادا کی گئی اسی طرح پی اینڈ ڈی میں سال 2009-10 کے دوران کوہستان میں روڈ کی تعمیر مکمل کئے بغیر ٹھیکیدار کو 40.42 ملین روپے کی ادائیگی کرکے اختیارات سے تجاوز کی گئی ۔

سی طرح پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے سال 2010-11 دوران بنک سے 14فیصد کے حساب سے سود وصول نہ کرکے سرکاری خزانے کو 24.35ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔اس وقت کی حکومت میں پی ڈی ایم اے نے وطن کارڈ پروگرام کے تحت یو بی ایل بنک کو 2905.52ملین روپے ادا کئے مگر بنک نے استعمال نہ ہونے والے 173.92ملین روپے واپس کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھے جو غیرقانونی تھے اس پر پی ڈی ایم اے کو 14فیصد کے حساب سے 24.35ملین روپے کا انٹرسٹ وصول کر نا چائیے تھا جو انہوں نے نہیں کیا۔

متعلقہ عنوان :