پولیس تشدد اور انتقامی کارروا ئی کیس،سپریم کورٹ کا وفاق اور صوبوں سے پولیس اصلاحات کا ایک جامع منصوبہ طلب،

عوام کو بنیادی حقوق کی پامالی حکومت کی ذمہ داری ہے عدالت کی نہیں،اگر حکومت ناکام ہوگئی ہے تو پھر ہم یہ ذمہ داری لینے کو تیار ہیں۔تھانہ کلچر کو درست کرنے کیلئے صرف کاغذی کارروائیاں کی گئی ہیں،اگر پولیس ٹھیک کام کرے تو جرم پنپ نہیں سکتا۔جسٹس جواد ایس خواجہ

جمعرات 29 جنوری 2015 19:16

پولیس تشدد اور انتقامی کارروا ئی کیس،سپریم کورٹ کا وفاق اور صوبوں سے ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 29 جنوری 2015ء) سپریم کورٹ نے پولیس کی طرف سے عام لوگوں پر تشدد اور انتقامی کارروائیوں کے مقدمے میں وفاق اور صوبوں سے پولیس اصلاحات کا ایک جامع منصوبہ طلب کرلیا ہے اور جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ عوام کو بنیادی حقوق کی پامالی حکومت کی ذمہ داری ہے عدالت کی نہیں،اگر حکومت ناکام ہوگئی ہے تو پھر ہم یہ ذمہ داری لینے کو تیار ہیں۔

تھانہ کلچر کو درست کرنے کیلئے صرف کاغذی کارروائیاں کی گئی ہیں،اگر پولیس ٹھیک کام کرے تو جرم پنپ نہیں سکتا۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے جمعرات کو حیدرعلی کیس کی سماعت کی ،جسے چکوال پولیس نے ایک مقدمے میں بری ہونے کے باوجود ہراساں کیا تھا،جس پر اس نے درخواست دی تھی۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد ایس خواجہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صرف تھانے کمپیوٹرائزڈ کرنے سے معاملات درست نہیں ہوسکتے،عوام کی خدمت پر توجہ دینا ہوگی،اگر سرکار درد دل رکھے تو پھر کام ہوگا لیکن درد دل پیدا کرنے والی کوئی فیکٹری نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر ایک وکیل حنیف کھٹانا نے کہا کہ نگرانی کا نظام موجود ہے لیکن فعال نہیں،جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیا اسے ہم نے بحال کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ دیگر اداروں کے بارے میں منصوبے بنائے جاتے ہیں لیکن پولیس کو کھلا چھوڑ دیا گیا،کیا صرف سپریم کورٹ کو ہی یہ معاملات دیکھنا ہوں گے،عدالت کب تک حکومتی ذمہ داریاں پوری کرے گی،احساس ذمہ داری ختم ہوگیا ہے،اگر احساس ہوتا تو یہ حالات نہ ہوتے۔بعد ازاں عدالت نے وفاق اور صوبوں سے پولیس اصلاحات کے بارے میں جامع منصوبہ طلب کرتے ہوئے سماعت12فروری تک ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :