پارلیمنٹ کے اراکین کے استحقاق کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا،چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور

جمعرات 29 جنوری 2015 15:35

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 29 جنوری 2015ء) قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین میاں عبدالمنان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین کے استحقاق کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا‘ پارلیمنٹرین کا استحقاق مجروح کرنے والے افسران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی‘ ایسے اداروں کے افسران جن کی پوسٹیں آئینی ہیں ان کی قائمہ کمیٹیوں میں غیر حاضری یا غلط بیانی پر ان کے خلاف ریفرنس بھیجے جائیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں رکن قومی اسمبلی نفسیہ شاہ‘ افضل خان ڈھانڈلا‘ نیلم حسنین‘ چوہدری سلمان حنیف‘ سردار عاشق حسین گوپانگ‘ سید عیسیٰ نوری سمیت دیگر اراکین اسمبلی نے بھی شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر رکن قومی اسمبلی سیدہ نفسیہ شاہ نے سب کمیٹی کی رپورٹ بھی پیش کی جس میں ان کی طرف سے پارلیمنٹرین کے استحقاق کی خلاف ورزی پر عدم کارروائی پر قانون بنانے کی تجویز شامل ہے۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ججز اور دیگر افسران اگر اپنے استحقاق کا تحفظ کرتے ہیں تو پارلیمنٹرین کو بھی حق ہے کہ وہ اپنے استحقاق کے حوالے سے قانون سازی کریں۔ حکومت کی طرف سے جو پارلیمنٹرین کو الاؤنسز اور تنخواہیں دی جا رہی ہیں اگر ان کو بڑھانے کی بات کی جائے تو ان کو ایشو بنا دیا جاتا ہے جو مناسب نہیں۔ اس موقع پر چیئرمین میاں عبدالمنان نے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹرین کے استحقاق کو تحفظ دینے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے افسران قائمہ کمیٹی کے اجلاسز میں شریک نہ ہو کر پارلیمنٹرین کا استحقاق مجروح کرتے ہیں کسی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا جائے تو ان کی تعیناتیوں کو آئینی پوسٹیں قرار دے کر معاملے کو دبا دیا جاتا ہے اس حوالے سے ہمیں قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر سیکرٹری پارلیمانی امور نے بتایا کہ کبھی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا کہ کوئی افسر کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوا ہو۔ 1973ء کے رولز کے مطابق ہر سرکاری افسر قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا مجاز ہے جبکہ قائمہ کمیٹی کسی بھی سویلین شخص کو بھی پولیس کے ذریعے طلب کر سکتی ہے اور اس کا قانون موجود ہے۔ جہان تک آئینی پوسٹوں پر تعینات افسران کی طلبی یا ان کے پیش نہ ہونے کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے قوانین میں انہیں کچھ ریلیف موجود ہے تاہم ان قوانین میں تبدیلی کے لئے وزارت قانون سے رائے لی جائے۔

سیکرٹری پارلیمانی امور کی تجویز پر قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ اجلاس میں سیکرٹری قانون کو بھی طلب کیا جائے اور اس حوالے سے قانونی رائے بھی لی جائے۔ اس موقع پر رکن قومی اسمبلی سردار عاشق حسین گوپانگ نے کہا کہ پارلیمنٹرین کے استحقاق کو تحفظ دینے کے لئے استحقاق کمیٹی کو بھی فعال بنایا جائے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ استحقاق کمیٹی میں متعلقہ افسر جس کے خلاف کوئی شکایت ہو کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی لہذا اس کو بھی فعال کرنا ناگزیر ہے عاشق حسین گوپانگ نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ ماضی میں استحقاق کمیٹی کئی افسران کے خلاف سخت کارروائی بھی کر چکی ہے ۔

1962-63 میں استحقاق کمیٹی کی سفارش پر ایک سینئر افسر کو 6 ماہ تک سزا بھی دی گئی ہے۔ تمام ممبران کی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ استحقاق کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے تاکہ اس معاملے پر حتمی لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔ کمیٹی نے استحقاق کمیٹی کے سابقہ فیصلوں کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ جن افسران کے خلاف کارروائی ہوئی وہ کس قانون کے تحت ہوئی۔

بعد ازاں چیئرمین قائمہ کمیٹی میاں عبدالمنان نے کہا کہ ہم اس حق میں بھی نہیں ہیں کوئی بھی رکن اسمبلی قانون کو توڑتے ہوئے اپنی آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کرے اگر کوئی رکن اسمبلی آئینی حدود میں رہ کر اپنا کام کرتا ہے تو اس پر اگر کوئی افسر رکن اسمبلی کے ساتھ بدتمیزی کرے اس کے خلاف میں سخت کارروائی کروں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے انہیں خط لکھا ہے کہ قائمہ کمیٹیوں کے اختیارات از سر نو تعین کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے لہذا قانون سازی کے عمل کو جلد مکمل کرنا ہو گا۔

چیئرمین کمیٹی نے رکن قومی اسمبلی سید عیسیٰ نوری کی طرف سے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات تحفظات ظاہر کئے جانے پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کو خط لکھنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ رکن قومی اسمبلی کے تحفظات کو دور کرے۔

متعلقہ عنوان :