گورنر پنجاب اپنے عہدے سے مستعفی، پہلے چار ماہ میں ہی گورنرشپ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیاتھا، دھرنوں کی وجہ سے تاخیر ہوئی، چوہدری محمد سرور

جمعرات 29 جنوری 2015 15:00

گورنر پنجاب اپنے عہدے سے مستعفی، پہلے چار ماہ میں ہی گورنرشپ چھوڑنے ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29جنوری2015ء) مستعفی ہونیوالے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہاہے کہ پاکستان میں سچ کا قحط ہے ، وہ پہلے چارماہ کے بعد ہی مستعفی ہوناچاہتے تھے لیکن قیادت کو اعتماد میں رکھنے کی کوشش کی وجہ سے استعفیٰ دینے میں تاخیر ہوئی ،جوکام کرناچاہتے تھے ، نہیں کرپائے جس پر وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھی معذرت چاہتے ہیں ۔

اُن کاکہناتھاکہ ملک میں بے انصافی روز بروز بڑھ رہی ہے ، سیاسی کارکنان کی قسمت میں نعروں اور دریاں بچھانے سے آگے کچھ نہیں ، وہ گورنرہاﺅس سے باہر رہ کر عوام کی بہتری وفلاح کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں گے اور پاکستان میں ہی جینا مرناہے ۔ اُنہوں نے کہاکہ برطانیہ میں رہ کر وہ مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑتے رہے ، برطانوی حکومت اور ملک کیخلاف بولے ، پہلی مرتبہ برطانیہ میں سرکاری طورپر عیدالفطر منانے اور عیدمیلادالنبی ﷺ کاجشن منانے میں کامیاب ہونیوالے پہلے مسلمان ہیں ۔

(جاری ہے)

استعفے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری محمد سرور کاکہناتھاکہ گورنر شپ سے مستعفی ہونے کا بہت دیر سے فیصلہ کیاہواتھا اور عہدہ سنبھالنے کے چار ماہ بعد ہی ہاتھ کھڑے کردیئے تھے ، جو کرناچاہتاتھا، وہ نہیں کرپایا اوراِس سلسلے میں رانا ثناءاللہ کوکام جاری نہ رکھنے کے بارے میں بتاتے ہوئے لیگی قیادت سے اجازت لے کر دینے کی درخواست کی تھی لیکن ایک سال بعد ملاقات ہوئی تو راناثناءاللہ کاکہناتھاکہ مشکل وقت ہے اور اس وقت مستعفی ہوناٹھیک نہیں جس پر خوداُنہوں نے بھی فیصلہ کیا کہ مشکل وقت میں دوستوں کو نہیں چھوڑناچاہیے کیونکہ اس وقت دھرنے جاری تھے ۔

چوہدری محمدسرور کاکہناتھاکہ شہبازشریف سے ملاقات ہوئی اور عہدہ چھوڑنے کی درخواست کی اوراس ضمن میں ایم ایس نے استعفیٰ ایوان صدر کو بھجوادیا لیکن وہ واضح کرتے چلیں کہ کسی دفتر یا شخصیت نے بیانات کی وضاحت یا استعفے نہیں مانگا ، وہ چاہتے تھے کہ میڈیاکے علم میں لائے جانے سے پہلے وہ خود لیگی قیادت کو اعتمادمیں لیں لیکن اس کے باوجود ایکسپریس نیوز نے بے بنیاد خبر چلادی ۔

چوہدری سرور نے کہاکہ وہ گاﺅں میں پیداہوئے ،ابتدائی تعلیم کے بعد بہترمستقبل کے لیے برطانیہ گئے،وہ برطانیہ کی تاریخ کے پہلے مسلمان اور برطانوی ہیں جنہیں ممبر پارلیمنٹ بننے کا شرف حاصل ہوا، پہلے ایشیائی تھے جو کسی ہاﺅس آف کامن کا چیئرمین تھا۔ اُنہوں نے بتایاکہ مسلمانوں ،کشمیریوں اور فلسطینیوںکے مفادات کی جنگ لڑی ، عراق اورافغانستان کے خلاف اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور حکومت میں ہوتے ہوئے اپنی ہی حکومت کے بل کی مخالفت کی ۔

ہاﺅس آف کامن میں عید الفطرمنانے کا اعلان کیاجس میں برطانوی وزیراور بیرونی سفیر آتے تھے اور پہلی مرتبہ عیدمیلادالنبی ﷺمنائی گئی جس میں علمائے کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اُن کاکہناتھاکہ دل میں پاکستان کی ترقی وخوشحالی کی خواہش رہی ، ایک فاﺅنڈیشن بنائی جس کے پلیٹ فارم سے دوستوں کے ہمراہ ہرمشکل گھڑی میں عوام کے ساتھ تھے ، پارلیمنٹ کی تمام مصروفیات چھوڑدیں ۔

اُنہوں نے بتایاکہ وزیراعظم نواز شریف نے پنجاب کا گورنر بنایاتو ذہن میں ایک منصوبہ تھاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو حقوق دلاﺅں گا، مثالی معاشرہ بنانے کی خواہش تھی جس میں حقوق ایک مخصوص طبقے تک محدود نہ ہوںلیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ پاکستان میں ظلم میں اضافہ ہورہاہے ، انصاف کمزور ہے ، قبضہ گروپ متحرک ہے ، اغوء،جنسی زیادتیوں کے واقعات میںمسلسل اضافہ ہورہاہے ، قاتل دندناتے پھرتے ہیں اور ورثاءدربدر ہیں ، ملک میں جمہوریت سیاسی کارکنان کی قربانیوں کی وجہ سے ہے جس کی وجہ سے لوگ اسمبلیوں میں جاتے ہیں ،وہ ذاتی طورپر کارکنان کا بہت احترام کرتے ہیںاور تمام سیاستدانوں سے درخواست ہے کہ کارکنان کو عزت دیں ، یورپ میں ورکرزاثاثہ ہوتے ہیں ۔

اُنہوں نے بتایاکہ اُن کے ساتھی ورکرزآج یورپ میں کونسلر ، کچھ ممبرپارلیمنٹ اور کچھ وزیربن گئے ، پاکستان میںکارکن جیلوں میں جاتے ہیں لیکن اُن کی قسمت میں نعروں اوردریاںبچھانے کے علاوہ کچھ نہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ایک دھوبی ،مزدوراور لوہارکا بیٹابھی پارلیمنٹ میں جاسکے ،سیاستدان اپنی طاقت پہنچانیں ، اگرکوئی پارٹی کی کمزوری بتائیں تووہ آپ ہی کے لیے بہترہے ، حقائق سے آگاہ کرنابہت ضروری ہے ۔

اُنہوں نے اعتراف کیاکہ وہ بطورگورنرعوامی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، اوورسیز پاکستانیوں سے خصوصی طورپر معذرت چاہتے ہیں جن کی امیدوں پر وہ پورے نہیں اُترسکے ، اوورسیز پاکستانی 25بلین ڈالربھیجتے ہیں لیکن ملک میں اُن کی زمینیںاورخاندان بھی محفوظ نہیںجس کے خلاف وہ کچھ نہیں کرسکے لیکن ایک وقت ضرورآئے گاکہ انصاف ملے گا۔اُن کاکہناتھاکہ اُنہیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں کہ ملک میں قبضہ گروپ بہت بڑابزنس بن چکا، قبضہ مافیہ گورنرکے عہدے سے بھی بڑابن چکاہے ۔

چوہدری سرور کاکہناتھاکہ وہ گورنرہاﺅس سے باہر رہ کر بہتر طریقے سے خدمات انجام دے سکتے ہیں ، اس لیے عہدہ چھوڑدیا اور واضح کردیں کہ میاں برادران یالیگی قیادت سے تعلقات خراب نہیں اوروہ تعلقات چھوڑنابھی چاہتے ، جوباتیں کی ہیں وہ اُن کی پارٹی ور ملک کے حق میں ہیں ، ایسی کوئی بات نہیں کرتاجوکسی کی بھی ذات سے متعلق ہو۔ اُنہوں نے واضح کیاکہ اُن کا جینا اور مرناپاکستان میں ہوگا، لوگوں کا خیال تھاکہ شوکت عزیز کی طرح عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد چلے جائیں گے لیکن وہ پاکستان میں ہی جیئیں مریں گے اورجو بھی ملک میں غریبوں کے لیے ذاتی حیثیت میں کرسکے، کریں گے، وسائل چند ہاتھوں کی بجائے ، عوام کے ہاتھوں میں ہونے چاہیں،وہ ایسامعاشرہ چاہتے ہیں جہاں ظالم ظلم کرنے سے پہلے ڈریں ،یہ ظلم نہیں کہ دوکروڑ تیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے ، مزدوری کررہے ہیں ،آدھی سے زیادہ آبادی پانی سے محروم ہیں ، عوام کی جان ومال اور عزت محفوظ نہیں ، اقلیتیں غیرمحفوظ ہیں ۔

اُنہوں نے گورنر ہاﺅس کے ملازمین اور میڈیا کارکنان کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ وہ چنددنوں میں بیرون ملک جائیں گے جہاں اوورسیز پاکستانیوں کے معاملات اوراپنے فیصلے پر اُنہیں اعتماد میں لیں گے لیکن واپسی کے بعد وہ پاکستان میں ہی رہیں گے ۔

متعلقہ عنوان :