حکومت کے غلط اور احمقانہ فیصلوں کی وجہ سے محکمہ تعلیم تباہی کے دھانے پرپہنچ چکا ہے

قومی زبان (اردو ) کو مستقل طور پر ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور انگریزی کے جبری نفاذ کو فی الفور واپس لیا جائے منصورہ میں جماعت اسلامی پنجاب کی صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں تعلیمی مسائل پر متفقہ طور پر قرار داد منظور

جمعرات 29 جنوری 2015 14:15

لاہور ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 29 جنوری 2015ء) جماعت اسلامی پنجاب کی صوبائی مجلس شوریٰ کااجلاس پارلیمانی لیڈر پنجاب اسمبلی وامیر جماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹر سید وسیم اختر کی زیر صدارت گزشتہ روز منصورہ لاہور میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں تعلیمی مسائل پر قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں کہا گیاہے کہ جماعت اسلامی پنجاب کی شوریٰ کا یہ اجلاس پنجاب میں تعلیمی شعبے کے گوناگوں مسائل اور حکومت کی مسلسل غلط پالیسیوں پر اپنی تشویش کا اظہارکرتاہے۔

اپنے من پسند فیصلے اور نمودو نمائش پر مشتمل اقدامات نے خزانے کو تو اربوں روپے کا نقصان پہنچایاہے لیکن اس سے نہ توتعلیم کا معیار بہتر ہوا اور نہ ہی قومی امنگوں سے ہم آہنگ نظام تشکیل پاسکا۔ اس کے برعکس صوبہ بھر میں مختلف نصاب اور نظام ہائے تعلیم نے شعبہ تعلیم کو تضادات سے بھر دیا ہے اور آج تعلیم کا مقصد قوم کی تعمیر کی بجائے جلد او ر زیادہ دولت کمانا بن چکا ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے حکمرانوں نے اپنے آقاؤں کے دباؤ پر نظام تعلیم اور نصاب تعلیم سے اسلامی و اخلاقی عناصر کو چُن چُن کر نصاب سے نکال کر باہر کردیا ہے۔ قرآنی آیات کو نصاب سے خارج کیا گیا ہے ۔ جسے عوامی دباؤ پر جزوی طور پر واپس لیا گیا۔ پرائمری تعلیم جو کہ بنیادی اور اساسی حیثیت رکھتی ہے حکومت کے غلط اور احمقانہ فیصلوں کی وجہ سے تباہی کے دھانے پہنچ گئی ہے۔

ذریعہ تعلیم کوقومی زبان سے تبدیل کرکے اپنے آقاؤں کی زبان انگریز ی میں لازم کردیا گیا ہے۔ پرائمری سکولز میں بھی مخلوط نظام کو نافذ کردیا گیا ہے۔ لڑکیوں کے سکولوں میں مرد اساتذہ اور لڑکوں کے سکولز میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی شروع کردی گئی ہے۔ تعلیم کو دن بدن مہنگا اور معاشرے کے عام افراد کی پہنچ سے دور کیا جارہا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کوئی منظم ا ورمربوط نظام نہیں ہے جس نے پیسہ مافیا کو اس فیلڈ میں کھل کھیلنے کے مواقع پیدا کردیے ہیں۔

سکولوں میں تفریح کے نام پر ہر قسم کا بے حیائی کلچر فروغ پانا شروع ہوگیا ہے۔ پشاور آرمی سکول کے سانحے کے بعد بجائے اس کے کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی۔ سیکورٹی گارڈ ز اور سی سی ٹی کیمروں کی تنصیب اور اس طرح کے دیگر اقدامات پر حکومتی دباؤ اور سختی نے جہاں سکولوں مالکان کو ذہنی پریشانی اور اذیت کا شکار کیا ہے وہیں تعلیمی اخراجات کو بھی بڑھادیا ہے۔

مزیدبرآں سیکیورٹی کے بہانے پورے ملک کے سکولوں میں خوف وہراس کی فضاء قائم کردی گئی ہے جوبچوں کی نفسیات پر برااثرڈال رہی ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے سہولیات کے اعتبار سے انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ بجلی ، پانی ، فرنیچر ، چار دیواری اور بیت الخلا جیسی بنیادی ضروریات بھی سکولوں میں دستیاب نہیں ہیں۔ کرپشن اور اقربا پروری دیگر اداروں کی طرح محکمہ تعلیم میں بھی اپنے عروج پر ہے۔

جماعت اسلامی پنجاب کی شوریٰ کا یہ اجلاس حکومت پنجاب کو درج ذیل امور پر فوری توجہ دینے اور درج ذیل اقدامات کا پرزور مطالبہ کرتا ہے۔ پاکستان کے اساسی نظریات اور قومی امنگوں کے مطابق جدید تقاضوں سے ہم آہنگ مستقل تعلیمی پالیسی وضع کی جائے۔ صوبے بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے۔ قومی زبان (اردو ) کو مستقل طور پر ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور انگریزی کے جبری نفاذ کو فی الفور واپس لیا جائے۔

تعلیمی اداروں میں ملکی ضروریات کوپیش نظر رکھتے ہوئے طلباء وطالبات کیلئے تعداد مقرر کی جائے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر31اور ایجوکیشن ایکٹ 1976کو تعلیمی پالیسی کا حصہ بنایا جائے ، جس کی رو سے نصابی درسی کتب میں اسلام کے خلاف کوئی موادشامل نہیں کیا جائے گا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25۔ اے کے تحت 5تا16سال کی عمر کے تمام بچے اور بچیوں کی لازمی مفت تعلیم کے لئے فنڈ ز مختص کئے جائیں اور صوبے کے وسائل کو وقتی اور نمائشی اقدامات پر ضائع نہ کیا جائے۔

مخلوط تعلیم کے مہلک اور مفسدانہ اقدام کو واپس لینے کے ساتھ طلبہ کے سکولوں میں خواتین اورطالبات کے سکولوں میں مرد اساتذہ کی تعیناتی کے حکم کو واپس لیا جائے ۔ محکمہ تعلیم سے اقراء پروری اور کرپشن کو ترجیحی بنیادوں پر ختم کیا جائے اورمحکمہ تعلیم اورتعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات اہل افراد کو میرٹ کی بنیاد پر تفویض کیے جائیں اورخصوصا افسران اوراساتذہ کے تقرر وتبادلے میں سیاسی مداخلت کو بند کیا جائے۔

خواتین کو بہتر اورآزادانہ تعلیمی ماحول مہیا کرنے کے لیے ان کے الگ تعلیمی ادارے اوریونی ورسٹیوں قائم کی جائیں ۔ اعلی اورپیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں میں غریب اورنادار طلبہ وطالبات کے لیے مفت تعلیم کا بندوبست کیا جائے ۔پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا فروغ اورترویج صوبائی محکمے کی عدم اہلیت اورکمزور گورنس کا منطقی نتیجہ ہے اس عمل کو حکمت ، احتیاط اورقومی تقاضوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے تاہم نصاب تعلیم ، فیسوں، معیار تعلیم اوربنیادی سہولتوں کے سلسلے میں قابل عمل اورمتوازن قانون سازی کی ضرورت ہے ۔

عالمی اداروں اوربیرونی ممالک سے اند ھا دھند تعلیمی امداد کے حصول کے لیے اپنی بنیادی پالیسوں تک کو ترک کردینے کی روش کو ختم کیاجائے ،اوراس امداد کو اپنی حقیقی ضرورت اورقومی تقاضوں کے تناظر میں قبول کیا جائے۔