جماعت اسلامی پنجاب کی صوبائی مجلس شوریٰ ،کاکسانوں کی بگڑتی معاشی صورتحال پرتشویش کااظہار

حکومت کی زراعت کش پالیسیوں نے کسان کی کمر بالکل توڑ کر رکھ دی ہے، حکومت کسانوں کے نمائندوں سے مشاورت کرکے اجناس کی قیمتیں مقرر کرے، ڈاکٹر سید وسیم اختر کی زیرصدارت منصورہ میں صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں متفقہ طور پر قرار داد منظور

بدھ 28 جنوری 2015 20:55

لاہور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 جنوری 2015ء) جماعت اسلامی پنجاب کی صوبائی مجلس شوریٰ کااجلاس پارلیمانی لیڈر پنجاب اسمبلی وامیر جماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹر سید وسیم اختر کی زیر صدارت گزشتہ روز منصورہ لاہور میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں ملکی زراعت پر قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں کہا گیاہے کہ جماعت اسلامی پنجاب کی شوریٰ کا یہ اجلاس کسانوں کی مسلسل بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتا ہے اور حکومت وقت کو یہ بار آور کروانا چاہتا ہے کہ اگر ملک کی 70فیصد آبادی معاشی پریشانیوں کا شکار ہوگی تو یہ ملک کبھی بھی ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا ۔

پچھلے سال سیلاب سے تباہ شدہ کسان کو جس بے دردی سے لوٹا گیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔گذشتہ سالوں میں 6000/-روپے من فروخت ہونے والی کپاس اس سال 2200/-روپے من تک فروخت ہوتی رہی ۔

(جاری ہے)

حکومت نے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP)کے ذریعے دس لاکھ گانٹھ خریدنے کا حوصلہ افزا اعلان کیا لیکن اس کا کوئی فائدہ کسان کو نہیں پہنچ سکا اور کسان اپنی لاگت بھی وصول نہ کرسکا۔

سیلاب سے بچ جانے والی چاول کی فصل جو گذشتہ کئی سالوں سے 2500/-روپے فی من فروخت ہوتی تھی اس سال 1400/-روپے فی من بھی ادھار فروخت پر کاشتکار مجبور رہا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ پاسکواس کی خریداری کرے گا اور قیمت مستحکم ہوجائیں گی مگر یہ بھی ممکن نہ ہوسکا۔ گنے کے کاشتکار کے ساتھ جو سلوک مل مالکان نے روا رکھا ہوا ہے ا سے کم از کم کسان دشمنی کہا جاسکتا ہے۔

جبکہ حکومت نے اس معاملہ میں چپ سادھ رکھی ہے۔ کنوں اور آم کے کاشتکار کے ساتھ بھی جو کچھ منڈیوں میں ہوا اس نے کسان کی بالکل کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان حالات میں جو مویشی کسان کا واحد سہارا تھے لیکن اس کے لیے بھی vaccinationانتہائی مہنگی اور ناپید ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں اور خصوصی طور پر بھارت سے ڈیوٹی فری 137 ۔ اشیاء کی درآمد نے سبزیوں کے کاشتکار کو بھی دیوار سے لگادیا ہے۔

17فیصد GST، سود پر زرعی قرضے ،انتہائی مہنگے زرعی مداخل ، ٹیوب ویل کے بجلی کے موجودہ ریٹس اور حکومت کی زراعت کش پالیسیوں کے ساتھ ہمارا کسان بھارتی کسان کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، جس کو ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دے دی گئی اور وہ اپنے ملک میں بھی 100ارب ڈالر کی سبسڈی وصول کرتا ہے۔ مزید برآں یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ اگر حکومت کی پالیسیاں ایسی رہیں تو مستقبل قریب میں آنے والی گندم کی فصل بھی منڈیوں میں دھکے کھاتی رہے گی اور کسان کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔

جماعت اسلامی پنجاب کی شوریٰ کا یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ کسان نمائندوں کے مشورے سے تمام اجناس کی قیمتیں مقرر کی جائیں اور حکومت اپنے اداروں کے ذریعے کاشتکار کی پیدا کردہ تمام فصل طے شدہ قیمت پر مکمل خریداری کو یقینی بنائے۔ زرعی مداخل اور اجناس کی خریدو فروخت پر جی ایس ٹی کو ختم کیا جائے۔ ہندوستان سے ڈیوٹی فری درآمدبند کی جائے۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اس ملک میں حکومت کسانوں کو بغیر سود کے زرعی قرضے دے۔ گنے کے کاشتکار کو مل مالکان سے ان کی فصل کی رقم کی ادائیگی کو فوری اور یقینی بنایا جائے۔ گندم کی پر چیز پالیسی کا فوری اعلان کیا جائے اور کھیتوں سے آخری دانے کی خریداری تک کو یقینی بنایا جائے۔