بااثر دہشت گردکی سزائے موت پر وفاقی حکومت دباؤ کا شکار

بدھ 28 جنوری 2015 13:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 جنوری 2015ء)ایک بااثر دہشت گردکی سزائے موت پر وفاقی حکومت دباؤ کا شکار ہے ۔اور اس ننے وفاقی حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بلا امتیاز دہشت گردوں کو پھانسی دینے کی پالیسی پر گھٹنے ٹیک دے ۔قانون اور پالیسی کی خلاف ورزی اور امتیاز کے معاملے میں نواز شریف حکومت نے اس بااثر دہشت گرد کی پھانسی کی سزا کو روکوانے کے دباؤ کے آگے شکست تسلیم کر لیا ہے حالانکہ صدر ممنون حسین نے اس مجرم کی معافی کی اپیل مسترد کر دی تھی ۔

لگتا ہے کہ وفاقی حکومت اپنی دی گئی ہدایت سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔31 دسمبر 2014 کو جاری کئے جانے والے ہنگامی پیغام میں متعلقہ صوبے کے سیکرٹری داخلہ کو آگاہ کیا گیا کہ صدر نے مذکورہ قیدی کی معافی کی اپیل مسترد کر دی ہے ۔

(جاری ہے)

سیکرٹری داخلہ کو یہ بھی آگاہ کیا کہ اس دہشت گرد کو صدرمملکت کے فیصلے سے آگاہ کیا جائے لیکن صرف دو دن بعد ہی یعنی2 جنوری کو وفاقی وزارت داخلہ اسی صوبائی سیکرٹری داخلہ کو فوری خط بھیجا جس میں صوبے کو ہدایت دی گئی کہ تھی تاحکم ثانی مذکورہ دہشت گرد کی پھانسی کی سزا کو روکا جائے ۔

سیکرٹری داخلہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ صوبائی حکومت ایک مرتبہ پھر اس بات کا تعین کر لے کہ آیا یہ کیس اس دائرے میں آتا ہے جو حکومت نے طے کر رکھا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے کچھ ہی دنوں میں وفاقی حکومت کو آگاہ کیا کہ مذکورہ دہشت گرد کا معاملہ وفاقی حکومت کی طے کردہ پالیسی کے تحت شمار ہوتا ہے ۔یہ جواب ملتے ہی وفاقی حکومت مشکل میں پھنس گئی کیونکہ اپنی ہی وضع کردہ پالیسی کے تحت اسے دہشت گردوں کی پھانسی دینا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرپا رہی کیونکہ یہ بدنام قیدی ریاست سے زیادہ طاقتور نکلا۔

17 دسمبر کو سزائے موت پر عائد پابندی ختم کرنے کے حکومت کے فیصلے کے بعد وزارت داخلہ نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جو مختلف مقدمات کا جائزہ لیکر صرف دو مقدمات وزیر اعظم سیکرٹری بھجواتی جو طے شدہ شرائط پر پورا اترتے تھے۔ان شرائط کے مطابق بھجوائے گئے معاملات کا وزیر اعظم سیکرٹری میں دوبارہ جائزہ لیا جاتا اور اس کے بعد صدر مملکت کو بجھوائے جاتے تا کہ وہ معافی کی ان اپیلوں کو مسترد کر سکیں ۔

اس بااثر دہشت گرد کے معاملے میں وزارت داخلہ اور وزیر اعظم آفس نے بتایا کہ یہ کیس بھی سزائے موت پر عملدرآمد کے لئے پورا اترتا ہے اور اس طرح یہ کیس توثیق کے لئے ایوان صدر بھجوایا گیا ۔نتیجتاً صدر
نے اس دہشت گرد کی معافی کی اپیل مسترد کر دی ۔قانون کے تحت صدر اگر ایک مرتبہ معافی کی اپیل مسترد کر دیں تو سات دن کے اندر پھانسی کی سزا دینا ہوتی ہے ۔

رحم کی اپیل مسترد کئے جانے کے بعد سزاے موت پر عملدرآمد کو روکنا قانون کی خلاف ورزی ہے او یہ حکومت کی دہشت گردوں کو پھانسی دینے کی اپنی ہی پالیسی سے انحراف ہے۔حکومت متعدد مرتبہ دعوی کر چکی ہے کہ تمام بدنام دہشت گردوں چاہیے ان کا تعلق مذہبی عسکریت پسند گروپس سے ہو یا بلوچستان کے علیحدگی پسند گروپس سے یا پھر کراچی کے لسانی دہشت گرد گروپس سب کو بلا امتیاز پھانسی دی جائے گی ۔وزیر اعظم کے ترجمان مصدق ملک کے مطابق سزائے موت پر پابندی تمام دہشت گردوں کے لئے ختم ہو چکی ہے لہذا تمام بدنام قیدیوں جنہیں دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت مل چکی ہے کو بلا امتیاز پھانسی دی جائے گی