سپریم کورٹ کا 21ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر وفاق‘ چاروں صوبوں کو نوٹس ‘ جواب طلب کر لیا

بدھ 28 جنوری 2015 12:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 جنوری 2015ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین میں 21ویں ترمیم کے خلاف دائر کردہ درخواست پر وفاق اور چاروں صوبوں کو نوٹس جاری کرتے جواب طلب کر لیا ہے۔ بدھ کو چیف جسٹس ناصر الملک کے علاوہ جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے درخواست کی ابتدائی سماعت کی۔لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی پیروی حامد خان نے کی۔

سماعت شروع ہوئی تو حامد خان نے ابتدائی دلائل میں کہاکہ پارلیمنٹ نے عجلت میں 21ویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی، قومی اسمبلی میں مختصر بحث کے بعد 6جنوری کو ترمیم کی منظوری دی گئی۔انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں بغیر کسی بحث کے اسی روز بل کو منظور کیا گیاجسٹس گلزار احمد نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ اس ترمیم میں ایک فریق تھے جس پر حامد خان نے کہا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ بار کی درخواست کی پیروی کر رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اے پی سی کی طرف سے بنائی گئی قانونی کمیٹی میں میں نے کھل کر اس ترمیم کی مخالفت کی، خوش قسمتی سے میری جماعت کے 34 ارکان قومی اسمبلی نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔حامد خان نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 3-175 متاثر ہوا جو عدلیہ کو ایگزیکٹیو سے الگ کرتا ہے، آئینی ترمیم سے آرٹیکل A-2 بھی متاثر ہوا جس میں عدلیہ کی آزادی کے مکمل تحفظ کی بات کی گئی ہے، آرٹیکل 8 بھی متاثر ہوا جو بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے حامد خان سے استفسار کیا کہ کیا آئینی ترمیم قانون ہے حامد خان نے کہا کہ یہ مفاد عامہ سے متعلق ایک اہم مقدمہ ہے۔چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ہم نے آپ کو سن لیا ہے ہم اٹارنی جنرل اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر رہے ہیں جس کے بعد عدالت نے درحواست کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر وفاق اور چاروں صوبوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12فروری تک ملتوی کردی۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے اٹارنی جنرل سے دو ہفتے میں جواب مانگا ہے۔اس موقع پر لاہور بار ایسوسی ایشن کے رہنما شفقت چوہان نے کہاکہ آئین کا دفاع سیاسی جماعتوں کا کام ہے تاہم وکلا نے یہ ذمہ داری اٹھائی ہے۔یاد رہے کہ پارلیمان نے گذشتہ ماہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا تھاانھی اقدامات کے تحت منظور کی جانے والی 21ویں ترمیم میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کی بھی منظوری دی گئی تھی واضح رہے کہ پارلیمنٹ میں اکیسویں ترمیم کی منظوری متفقہ طور پر دی گئی تھی تاہم پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ نے قومی اسمبلی میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھاوفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کڑوا گھونٹ سمجھ کر پیا ۔

ترمیم کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا

متعلقہ عنوان :