الیکشن کمیشن کے ممبران نے دوروں کی مد میں کروڑوں روپے حکومتی خزانے سے خرچ کر ڈا لے

سابق چیف الیکشن کمشنر حامد علی مرزا جن کی رہائشگاہ کراچی میں تھی ان کے کراچی سے آنے اور جانے کے اخراجات بھی الیکشن کمیشن کو برداشت کرنا پڑے،موجودہ چیف الیکشن کمشنر نے دوروں پر پابندی عائد کرکے حکومتی خزانے کو لوٹنے سے بچالیا

اتوار 25 جنوری 2015 16:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین ۔ 25جنوری 2015ء) الیکشن کمیشن کے ممبران گذشتہ ساڑھے تین سال سے دوروں کی مد میں کروڑوں روپے حکومتی خزانے سے خرچ کرچکے ہیں‘ سابق چیف الیکشن کمشنر حامد علی مرزا کی جانب سے کئے جانے والے اخراجات کی روش ممبران نے بھی اپنالی‘ میڈیکل‘ ٹرانسپورٹ‘ ٹیلیفون اور تنخواہوں کی مد میں ماہانہ لاکھوں روپے وصول کرنے والے ممبران کے حصے میں 2013ء کا متنازعہ الیکشن آیا‘ موجودہ چیف الیکشن کمشنر نے دوروں پر پابندی عائد کرکے حکومتی خزانے کو لوٹنے سے بچالیا۔

الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق اٹھارہویں ترمیم سے قبل الیکشن کمیشن کے معاملات چلانے کیلئے حاضر سروس ججز کو الیکشن کمیشن کا ممبر مقرر کیا جاتا رہا اور وہ الیکیشن کمیشن کے اجلاسوں میں شرکت کیلئے اپنی ہی گاڑیوں میں آتے تھے اور اجلاسوں کے بعد واپس چلے جاتے ان کے آنے اور جانے پر الیکشن کمیشن اور حکومت کے کچھ زیادہ اخراجات نہیں ہوتے تھے مگر ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن میں چاروں صوبوں سے ایک ایک ممبر تعینات کیا گیا جن کی تنخواہیں ہائیکورٹ کے جج کے برابر مقرر کی گئی اور انہیں علیحدہ دفاتر‘ گاڑیاں اور سٹاف فراہم کیا گیا۔

(جاری ہے)

سابق چیف الیکشن کمشنر حامد علی مرزا جن کی رہائشگاہ کراچی میں تھی ان کے کراچی سے آنے اور جانے کے اخراجات بھی الیکشن کمیشن کو برداشت کرنا پڑے۔ ان کی دیکھا دیکھی الیکشن کمیشن کے ممبران نے بھی اپنے گھروں کے سرکاری دوروں پر کروڑوں روپے خرچ کردئیے جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن کے معزز ممبران کے گھروں کے دوروں کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے سرکاری کام میں بھی بے حد تاخیر ہوجاتی ہے۔

ذرائع کے مطابق ان ممبران نے 2013ء کا الیکشن منعقد کرانا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازعہ الیکشن قرار دئیے جارہے ہیں اور مسلم لیگ کے سواء تمام سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے یہ ممبران نہ صرف مرکزی دفتر پر بے جاء اخراجات کا بوجھ ڈالتے رہے بلکہ اپنے اپنے صوبوں میں قائم صوبائی دفاتر بھی ان کی ناز برداریوں پر مجبور رہے اور انہی ناز برداریوں کی آڑ میں الیکشن کمیشن کے سابق صوبائی سربراہان ان سے جائز اور ناجائز فوائد حاصل کرتے رہے۔

ذرائع کے مطابق سندھ میں تعینات سابق صوبائی الیکشن کمشنر سونو خان نے دفتر کی گاڑیاں چند ہزار روپے میں نیلام کیں جس کیخلاف الیکشن کمیشن کی ایک خاتون اہلکار نے ایف آئی اے کو تحریری شکایت بھی کی تھی مگر اس کیس کو دبادیا گیا اور آج تک اس کیس کا پتہ نہ چل سکا۔ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے ممبران کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف الیکشن کا انعقاد کریں گے اور دھاندلی کو روکیں گے۔

اس کیساتھ ساتھ دھاندلی میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی کریں گے مگر الیکشن کمیشن کے موجودہ ممبران نے 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کی شکایت کا سدباب کیا اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے اندر کرپشن کا خاتمہ کرسکے۔ اس وقت الیکشن کمیشن میں سیکرٹری الیکشن کمشنر سمیت بیس کے قریب عہدے خالی ہیں جن پر تعیناتیوں کیلئے الیکشن کمیشن کے پاس موزوں افسران موجود نہیں ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے اپنے افسران کو مناسب ٹریننگ ہی فراہم نہیں کی اس کیساتھ ساتھ الیکشن کمیشن میں گذشتہ کئی سال سے ترقیوں کے منتظر افسران کی پروموشن بھی نہیں ہوئی۔

الیکشن کمیشن میں خالی آسامیوں کو پر کرنے کیلئے موجودہ چیف الیکشن کمشنر پرعزم ہیں مگر ممبران کی منظوری کے بغیر وہ کسی بھی عہدے پر تعیناتی نہیں کرسکتے۔