ملک کو بچانے کے لئے آئین توڑنا پڑے تو یہ بڑی بات نہیں بعد میں عدالتوں سے اسے آئینی اور قانونی حیثیت دلائی جا سکتی ہے، جنرل (ر) پرویز مشرف ،

فوج کی پشت پناہی سے نامزد افراد کی ایسی حکومت قائم کی جانی چاہئے جو عام انتخابات سے پہلے ضروری آئینی ترامیم کرے ، سابق صدر ، چیک اینڈ بیلنس کے لئے فوج کو آئینی کردار دیا جانا چاہیے، میں سندھ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لئے کوئی سازش نہیں کر رہا، آصف زرداری کا بیان ان کے ذہنی خوف کی پیداوار ہے، مخدوم امین فہیم میرے پرانے دوست ہیں پیر پگارا اور امین فہیم کی خواہش پر میری ان سے ملاقات ہوئی تھی

بدھ 7 جنوری 2015 23:35

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 07 جنوری 2015ء) سابق صدر پاکستان ریٹائرڈ جنرل آمر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ملک کو بچانے کے لئے آئین توڑنا پڑے تو یہ بڑی بات نہیں بعد میں عدالتوں سے اسے آئینی اور قانونی حیثیت دلائی جا سکتی ہے، فوج کی پشت پناہی سے نامزد افراد کی ایسی حکومت قائم کی جانی چاہئے جو عام انتخابات سے پہلے ضروری آئینی ترامیم کرے چیک اینڈ بیلنس کے لئے فوج کو آئینی کردار دیا جانا چاہیے، میں سندھ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لئے کوئی سازش نہیں کر رہا آصف زرداری کا بیان ان کے ذہنی خوف کی پیداوار ہے، مخدوم امین فہیم میرے پرانے دوست ہیں گذشتہ دنوں پیر پگارا اور مخدوم امین فہیم کی مشترکہ خواہش پر میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔

(جاری ہے)

ایک سندھی ٹی وی چینل سے گفتگو میں سابق آمر پرویز مشرف نے کہا کہ میں مارشل لاء کے حق میں نہیں ہوا لیکن فوج کی پشت پناہی سے نامزد افراد کی مضبوط حکومت قائم ہونی چاہیے جو عام انتخابات سے پہلے آئین میں ضروری ترامیم کرے، ایک سوال پر جنرل مشرف نے کہا کہ ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے آئین توڑا جا سکتا ہے اور پھر اسے آئینی اور قانونی حیثیت بھی عدالتوں سے دلائی جا سکتی ہے جیسا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر میرے قبضے کو عدالتوں نے قانونی قرار دیا تھا، ایک سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام اور کچھ دیگر حوالوں سے نوازشریف حکومت کی راولپنڈی کی اسٹیبلشمنٹ سے کشمکش کم ہوتی نظر آ رہی ہے لیکن مسئلہ تب حل ہو گا جب یہ حکومت عوام کو سماجی ریلیف دینے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے گی اور گورننس ٹھیک کرے گی، انہوں نے کہا کہ وسط مدتی انتخابات کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں سابقہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج ہوتا چلا آ رہا ہے سپریم کورٹ کو ان انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، سندھ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کی سازش میں ان کے ملوث ہونے کے آصف زرداری کے بیان کے حوالے سے سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ میں سندھ حکومت کے خلاف کسی سازش میں شریک نہیں ہوں نہ ہی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لئے کسی سے مشاورت کی ہے آصف زرداری کا یہ بیان ان کے ذہن میں موجود خوف اور ان کی حکومت کی کمزوری کی پیداوار ہے، آئین سے بالا حکومت کو عدالتیں کیسے قانونی تسلیم کریں گی اس سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ 1999ء میں میری حکومت کو بھی عدالتوں نے قانونی قرار دیا تھا، مخدوم امین فہیم سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ مخدوم امین فہیم میرے پرانے دوست ہیں ان کی اور پیرپگارا کی مشترکہ خواہش تھی کہ وہ مجھ سے ملاقات کریں جس پر وہ مجھے ملنے آئے تھے، آمر پرویز مشرف نے ایک سوال پر کہا کہ میرے دور میں حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے کہ آج ہیں میرے دور میں بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے 67 فراری کیمپ ختم کئے گئے تھے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بھارت اور را کی مداخلت واضع ہے صرف کچھ سردار شورش برپا کئے ہوئے ہیں، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بینظیر پر کراچی میں حملہ اور راولپنڈی میں ان کا قتل انفرادی نوعیت کے واقعات تھے اس سے مجموعی طور پر ملک کے حالات خراب ہونے کی نشاندہی نہیں ہوتی ویسے تو میری زندگی کو بھی خطرات لاحق تھے، کیا خودکش حملہ آور فوجی عدالتوں سے ڈر جائیں گے اس سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لئے دہشت گردوں ان کے رہنماؤں، تنظیموں اور دہشت گردی کے اسباب کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک ہے پنجاب میں فرقہ واریت ہے کراچی میں لسانی اور فرقہ واریت کی صورت میں دہشت گردی ہے اس لئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام حوالوں سے آپریشن کرنا ہو گا، ایک سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ اکبر بگٹی کے قتل سے بلوچستان میں نفرت بڑھنے کا تاثر ٹھیک نہیں ہے بلوچستان میں 1960ء سے مسئلہ موجود ہے اس وقت را اور روس مل کر علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کر رہے تھے اور بلوچستان میں پہلا آپریشن ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔