دنیا کے 58ملکوں میں سزائے موت پر عملدرآمد،98میں سزائے موت نہ دینے کی پالیسی ہے، رپورٹ،

35 ملک ایسے ہیں جنہوں نے سزائے موت پر عمل درآمد10 سال یا اس سے زاید عرصے کے لیے روک دیا ہے

اتوار 28 دسمبر 2014 18:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین۔ 28دسمبر 2014ء ) دنیا کے 58 ملکوں میں سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے۔98 ملکوں نے مجرموں کو سزائے موت نہ دینے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے اور وہاں سنگین جرائم میں ملوث افراد کو دیگر سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت صرف انتہائی سنگین جرم کے ارتکاب پر ہی دی جاتی ہے۔

دنیا کے 35 ملک ایسے ہیں جنہوں نے سزائے موت پر عمل درآمد10 سال یا اس سے زاید عرصے کے لیے روک دیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق عالمی قانون کے تحت اب دنیا بھر میں 18 سال سے کم عمر افراد کو سزائے موت دینے پر پابندی ہے۔ تاہم ایران، سعودی عرب اور سوڈان ایسے ملک ہیں جو جرم کی پاداش میں عمر کی رعایت کیے بغیر مجرموں کو سزائے موت دے دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

2005ء میں پاکستان میں تقریباً 241 مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی، ان میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث افراد بھی شامل تھے اور وہ بھی جنھوں نے دولت اور جائیداد کی لالچ میں دوسروں کو موت کے گھاٹ اتارا۔

ان 241 میں سے صرف 31 ہی کو تختہ دار پر لٹکایا جاسکا۔ 2005 میں یہ تعداد دنیا بھر میں سزائے موت پانے پر عمل درآمد کے حوالے سے 5 ویں نمبر پر تھی۔ پاکستان کے علاوہ، چین، ایران، سعودی عرب اور امریکا بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔2005 کے بعد اور اس سے قبل بھی پھانسی کی سزائیں دی جاتی رہیں اور کچھ سزاؤں پر عمل درآمد بھی ہوا، تاہم عدالتی نظام، گواہوں کے خوف، مجرموں کے بااثر ہونے، عدالتوں میں کیسوں کی بہتات اور دیگر وجوہ نے بہت سارے قاتلوں اور مجرموں کو تاحال پھانسی کے پھندے سے بچایا ہوا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 1999 ء میں 13 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پاکستان دنیا کے اْن 8 ممالک میں شامل تھا، جہاں 18 سال یا اس سے کم عمر افراد کو ان کے سنگین جرائم کی پاداش میں سزائے موت دی گئی اور اْن پر عمل بھی ہوا۔ دیگر ملکوں میں چین، کانگو، ایران، نائجیریا، سعودی عرب، امریکا اور یمن شامل تھے۔

متعلقہ عنوان :