پیپلزپارٹی کی قیادت کا بے نظیر بھٹو قتل کیس خصوصی عدالت سے فوجی عدالت میں منتقل کرنے کا مطالبہ،

حکومت شش و پنج کا شکار، اٹارنی جنرل آف پاکستان سمیت دیگر نامور قانون دانوں سے مشاورت شروع

اتوار 28 دسمبر 2014 15:05

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین۔ 28دسمبر 2014ء) پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت نے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے پاکستان پیپلزپارٹی کی سابق چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے بم دھماکے کے مقدمہ میں ملوث ملزمان کے مقدمے کا چالان خصوصی عدالت سے فوجی عدالت میں منتقل کرنے کا مطالبہ کردیا‘ حکومت شش و پنج کا شکار،اس سلسلے میں حکومت کے اعلی عہدیداروں نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سمیت دیگر نامور قانون دانوں سے مشاورت شروع کردی ہے۔

آن لائن کو ذرائع نے بتایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت بشمول سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے دیگر ممبران نے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں میں دیگر دہشت گردی کے مقدمات کیساتھ ساتھ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمہ میں ملوث ملزمان جن میں سابق صدر پاکستان پرویز مشرف‘ سابق ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایک ایس ایس پی سمیت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کا مقدمہ نئی قائم ہونے والی فوجی عدالت کے سپرد کیا جائے تاکہ جلداز جلد فیصلہ ہوسکے۔

(جاری ہے)

حکومت پیپلزپارٹی کی اس دھمکی کے بعد گومگو کی پوزیشن میں آگئی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے گذشتہ روز بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ ان کا قتل کیس بھی فوجی عدالت کو منتقل کیا جائے۔اس سلسلے میں حکومت کے اعلی عہدیداروں نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سمیت دیگر نامور قانون دانوں سے مشاورت شروع کردی ہے۔ مقتدر حلقوں کے سربراہوں سے بھی بات ہوگی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا مقدمہ راولپنڈی کی خصوصی عدالت میں گذشتہ سات سال سے زیر سماعت ہے جس کا آج تک فیصلہ نہیں ہوسکا جبکہ اس مقدمہ میں سابق صدر پرویز مشرف‘ سابق ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایک ایس ایس پی ضمانت پر ہیں جبکہ اس مقدمہ میں دیگر ملوث چھ دہشت گرد جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے‘ ان دنوں جیل میں قید ہیں۔ اگر حکومت نے بے نظیر قتل کیس فوجی عدالت میں منتقل نہ کیا تو قومی اسمبلی اور سینٹ میں ان عدالتوں کے قیام کی قانون سازی میں پیپلزپارٹی رخنہ ڈال سکتی ہے۔ اگر حکومت اس نئے قانون کی منظوری حاصل نہ کرسکی تو حکومت ان عدالتوں کے قیام کے سلسلے میں صدارتی آرڈیننس جاری کرے گی جس کی بعدازاں توسیع کرائی جائے گی۔

متعلقہ عنوان :