پرنس روڈ پر دھماکہ صوبے میں امن کے دعویداروں کی منہ پر طمانچہ ہے،مولانا عبدالواسع،

قیام امن کے دعویدار بتائیں فول پروف سیکیورٹی کے باوجود شہر کے وسط میں دھماکہ کیسے ہوگیا؟، حکومتی سیکیورٹی ڈرامہ شہریوں کو تنگ کرنے کا نام تھا، صحافیوں سے گفتگو

جمعہ 26 دسمبر 2014 22:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26دسمبر 2014ء) جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ پرنس روڈ پر دھماکہ صوبے میں امن کے دعویداروں کی منہ پر طمانچہ ہے امن وامان قائم کرنے کے دعویدار حکومت یہ بتائے کہ فول پروف سیکورٹی کے باوجو دشہر کے وسط میں واقع تجارتی مرکز پرنس روڈ پر دھماکہ کس طرح ہوا کیا یہ بم کو غیبی طور پر یہاں آیا تھایا پھر حکومت کی سخت سیکورٹی کا ڈرامہ مخصوص روڈپر شریف شہریوں کو تنگ کرنے کا نام تھا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ بات گذشتہ روزبات چیت کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان کے کوئٹہ آمد کے موقع پر کوئٹہ شہر کے روڈوں کو جس طرح جیل کے بارکوں میں تبدیل کردیاگیاتھا جہاں سے عام شہری کا گزرنا تو محال کردیاگیا تھا لیکن دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی دھماکہ عین اس وقت ہوا جب صدر پاکستان پرنس روڈ سے بمشکل دو منٹ کے فاصلے پر واقع گورنر ہاؤس میں تشریف فرما تھے جو صوبائی حکومت کو اپنے تقریب میں امن کے حوالے سے داد بھی دے چکے تھے لیکن بم دھماکے نے صو بائی حکومت کے سیکورٹی کے انتظامات کا پول کھول کر امن وامان کی بحالی کے دعوے جھوٹے ثابت کردئیے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت صرف اپنے وزراء کی سیکورٹی کے حد تک محدود ہیں کیسے یقین کیا جائے کہ جس شہر میں پہلے سے وی آئی پیز کیلئے سیکورٹی کے نام پر وی وی آئی پی سیکورٹی پلان اور روٹ لگائے گئے ہو اس کے باوجود اس طرح کے واقعہ کا رونما ہونا حکومت کے امن کی قیام میں ناکام ہونی کی واضح ثبوت ہیں امن وامان کے حوالے سے اپوزیشن اور مسلم لیگ (ن) نے اسمبلی اجلاس طلب کرلیاتھاجس نے امن وامان کے حوالے سے اپوزیشن کے ٹھوس موقف کو نظر انداز کردیاگیا جس پر اپوزیشن نے بڑی واضح اور موقف کے ساتھ دلیلیں پیش کی تھی لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بعض وزراء اور ارکان اسمبلی نے اپوزیشن جو کہ صوبے کے پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی کر رہے تھی کی آوازکو دبانے کی کوشش کی اور ہر دفعہ امن وامان کے حوالے سے بات کرنے پر بحث کے دوران کوئی اور ایشو لا کر ان شاہ کے وفاداروں نے ایوان کے سامنے اپوزیشن کے امن کے حوالے سے عوام کے خدشات بیان کرنے سے روکے رکا عوام کی آواز اقتدار میں موجودلوگوں نے یا تو سنی نہیں یا آن سنی کردی جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اس طرح کے دہشتگردی کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں اور وزیراعلیٰ بلوچستان ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ایک رپورٹ جس کو ہم سپاسنامہ سے تشبیح دیتے ہیں اتنے بڑے بحث کو پانچ منٹ میں ختم کرکے سب اچھا ہے کی لاگ آلاپ کر ایسے رخصت چاہئی جیسے صوبے میں ان کی نظر میں امن وامان سے دیگر اہم اجلاس بھی جس میں وہ شرکت کرنا چاہتے ہوانہوں نے کہاکہ اپوزیشن کسی بھی صورت حکومت کے امن وامان کے سپاسنامہ سے مطمئن نہیں ہے جس پر آئندہ اجلاسوں میں بھی بحث کی جائیگی اور حکومت کو مجبور کیا جائیگا کہ وہ عوام کو امن وامان فراہم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے نہ کہ زبانی خرچ سے کام چلائیں۔