تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم کو واضح مینڈیٹ دے دیا ، سراج الحق ،

اب حکومت کا امتحان شروع ہوگیا،پشاور شہر کئی دہائیوں سے مسلسل قربانیاں دے رہا ہے، شہریوں کے حوصلے اب بھی بلند ہیں،مرکزی حکومت شہر کی عزت افزائی کرتے ہوئے دلیر ترین شہر کارتبہ دے، آرمی پبلک سکول کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر پرنسپل طاہرہ قاضی کے نام سے منسوب کیا جائے،لاکھوں آئی ڈی پیز کے لئے ایمرجنسی پروگرام تشکیل دیا جائے ، ان کے لئے روزگار اور عزت کے ساتھ واپسی کا اہتمام کیا جائے۔ 2015ء کو امن کا سال قرار دیا جائے،ملک میں تمام مسائل کی جڑ نظریہٴ پاکستان سے بے وفائی ہے،،منبر و محراب کی قوت استعمال کرکے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے،شہید پرنسپل طاہرہ قاضی اور شہید طالب علم ثاقب کے لواحقین سے تعزیت اور فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے گفتگو

جمعہ 26 دسمبر 2014 22:06

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26دسمبر 2014ء) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کوواضح مینڈیٹ دے دیا ہے۔ اب حکومت کا امتحان شروع ہوگیا۔پشاور شہر کئی دہائیوں سے مسلسل قربانیاں دے رہا ہے ۔اس کے شہریوں کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔مرکزی حکومت شہر کی عزت افزائی کرتے ہوئے دلیر ترین شہر کارتبہ دے۔

آرمی پبلک سکول کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر پرنسپل طاہرہ قاضی کے نام سے منسوب کیا جائے جنہوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر معصوم طلبہ کی جان بچائی ۔صوبائی حکومت کا سکولوں کو بچوں کے نام سے منسوب کرنے کے فیصلے کو سراہتے ہیں۔ اس فیصلے سے بچوں کی قربانی زندہ رہے گی۔ قوم کی خواہش ہے کہ اس تاریخی قربانی کے بدلے میں اسے امن ملے ۔

(جاری ہے)

قبائلی علاقوں کو مشران کے مشورے کے ساتھ ایک نظام دیا جائے اور اسے مزید سرزمین بے آئین نہ رکھا جائے ۔

لاکھوں آئی ڈی پیز کے لئے ایمرجنسی پروگرام تشکیل دیا جائے ، ان کے لئے روزگار اور عزت کے ساتھ واپسی کا اہتمام کیا جائے۔ 2015ء کو امن کا سال قرار دیا جائے ۔ سیاست اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی امن مارچ کا اہتمام کیا جائے۔ ملک میں تمام مسائل کی جڑ نظریہٴ پاکستان سے بے وفائی ہے۔ ملک بھر کے علماء کرام نے دہشت گردی اور بالخصوص پشاور میں سکول کے معصوم بچوں کے سفاکانہ قتل کی مذمت کی۔

منبر و محراب کی قوت استعمال کرکے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ شریعت اور مساجد کے خلاف پروپیگنڈہ مغربی ممالک اور استعمار کا ایجنڈہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرمی پبلک سکول کی شہید پرنسپل طاہرہ قاضی اور شہید طالب علم ثاقب کے لواحقین سے تعزیت اور فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرت ہوئے کیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سیکرٹری اطلاعات اسراراللہ ایڈوکیٹ ، ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات شمشاد احمد خان ایڈوکیٹ، سیکرٹری سیاسی کمیٹی بحراللہ ایڈوکیٹ ، سابق صوبائی وزراء حافظ حشمت خان اور کاشف اعظم اورممبر میڈیا سیل سبز علی خان نوید اور تفہیم الرحمن بھی ان کے ہمراہ تھے ۔

سراج الحق نے کہا کہ 16دسمبر کے اندوہناک سانحے کے بعد پشاور میں زندگی رک گئی ہے ۔چہروں سے مسکراہٹیں ختم ہوگئی ہیں ۔ اس حادثے کے اثرات تادیر قائم رہیں گے ۔ یہاں کے عوام نے معصوم فرشتے کفن میں لپیٹ کر مٹی کے حوالے کئے ہیں ۔ اس واقعے نے پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کو متحد کردیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی اپیل پر ہم نے ان کو مکمل مینڈیٹ دے دیا ہے ۔

اب نواز شریف اور ان کی پوری ٹیم کا امتحان ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ان کو یہ مینڈیٹ امن کے لئے دیا ہے ۔تاہم انہوں نے کہا کہ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ممکنہ اقدامات اور سٹریٹیجی کے بنیادی خدوخال کے خاکے یا Concept Paper کی منظوری دی ہے اور پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں منظور کردہ متفقہ سفارشات کی روشنی میں تفصیلی منصوبہ بنائیگی اور اس حوالے سے جو بھی قانون سازی کی کرنا ہوگی یا اقدامات تجویز کئے جائیں گے وہ حکومت قومی اسمبلی میں پیش کرے گی اور عوام کا منتخب ایوان اس کی منظوری دے گا اور ہمیں امید ہے کہ جو بھی اقدامات ہوں گے وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے گا۔

جمہوریت میں اکثریت کے فیصلوں کو مانا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی سمیت کچھ جماعتوں کو پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں بعض نکات سے اختلاف تھا ۔یہ نکات قومی اسمبلی میں پیش کئے جائیں گے اور قانون بنانے کے لئے ایک ایک لفظ جائزہ لیا جائے گا۔ اگر اب بھی ملک میں امن قائم نہ ہوسکا تو پھر کبھی بھی اس کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقے پشاور کے قریب ہیں ، ان کے اثرات براہ راست پشاور پر مرتب ہوتے ہیں۔

حکومت ابھی تک قبائل کے مسائل حل نہیں کرسکی ۔ قبائلی علاقوں میں سکول ، کالجز اور یونیورسٹیاں نہیں ہیں، حتیٰ کہ پینے کے صاف پانی کا بھی انتظام نہیں ۔ بجٹ میں تمام قبائلی علاقوں کے لئے اتنی رقم رکھی جاتی ہے جس سے شہر کی ایک بڑی سڑک ایک بڑی سڑک بھی تعمیر نہیں ہوسکتی۔قبائلی علاقوں میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ حکومت ان علاقوں کے مسائل حل کرنے کے لئے فوری پروگرام وضع کرے ۔

انہوں نے کہا کہ مساجد اور مدارس کی سرپرستی اور نگرانی پوری قوم کررہی ہے۔ دینی مدارس کے مسلمہ بورڈز اور جید علماء کرام کے مشوروں سے مدارس کے لئے جدید نظام وضع کیا جائے۔ دینی مدراس میں لاکھوں طلبہ علم حاصل کرتے ہیں لیکن بجٹ میں ان کے لئے کوئی رقم مختص نہیں۔ آج بھی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے ممبر و محراب سب سے بڑی قوت ہے۔ ملک میں اتحاد و اتفاق اور دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد کی قیادت علماء کرام ہی کرسکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جرم اگر وزیر اعظم کرے ، کوئی وزیر یا کوئی عالم دین قانون سب کے لئے برابر ہے اور جس نے بھی جرم کیا ہے اس کے خلاف قانون حرکت میں آنا چاہئے۔لیکن لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے بیان کو بنیاد بنا کر لال مسجد گرانی کی بات کرنا انتہائی نامناسب ہے۔ جو بھی یہ کرتے ہیں وہ ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کررہے ہیں۔

سراج الحق نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا ۔ ہمارے تمام مسائل کی جڑ نظریہٴ پاکستان سے بے وفائی ہے۔ اب بھی اگر ملک میں مکمل اسلامی نظام نافذ کردیا جائے تو پاکستان کے تمام مسائل ختم ہوجائیں گے اور دہشت گردی کی یہ لہر بھی خود بخود دم توڑ دیگی۔قبل ازیں آرمی پبلک سکول کی شہید پرنسپل طاہرہ قاضی کے شوہر قاضی ظفر سے اظہار تعزیت کے بعد ان سے گفتگو کے دوران امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ پوری پاکستانی قوم شہداء کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔

شہید طاہرہ قاضی نے قربانی کی جو مثال قائم کی ہے اس پر پوری قوم کو فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نیک نیتی اور جرأت سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پوری قومی قیادت سے ملنے والے مینڈیٹ کی روشنی میں اقدامات کرے تو دہشت گردی کے عفریت کو شکست دی جاسکتی ہے۔ اس وقت حکومت ، افواج پاکستان اور ملک کی پوری سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک صفحے پر آچکی ہے۔ اب حکومت کی پوری ٹیم کی آزمائش ہے کہ پوری قوم کی طرف سے ملنے والے واضح مینڈیٹ کو کس طرح موثر انداز میں بروئے کار لاکر ملک میں پائیدار امن قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔