ملک بھر کی وکلاء برادری نے فوجی عدالتوں کے قیام کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا

ملک میں دو عدالتی نظام نہیں چل سکتے‘ حکومت نے موجودہ اقدام اٹھاکر ثابت کردیا ہے کہ یہاں احمقوں اور نااہل افراد کی حکومت ہے، آ ئینی ما ہر ین

جمعرات 25 دسمبر 2014 16:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 25 دسمبر 2014ء) ملک بھر کی وکلاء برادری نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کے قیام کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور شدید تشویش کا اظہار کرتے ہو ئے کہا ہے کہ ایک ملک میں دو عدالتی نظام نہیں چل سکتے‘ حکومت نے موجودہ اقدام اٹھاکر ثابت کردیا ہے کہ یہاں احمقوں اور نااہل افراد کی حکومت ہے جو ہر کام آئین سے متصادم کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ وکلاء نے دھمکی دی کہ اگر حکومت نے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے کوئی آئینی ترمیم لانے کی کوشش کی تو اسے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کریں گے۔

”اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 25 دسمبر 2014ء“ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر آئین سلیمان اکرم راجہ نے کہا کہ فوجی عدالتیں قائم کرنے کیلئے موجودہ آئین اجازت نہیں دیتا۔

(جاری ہے)

حکومت کی طرف سے نئی عدالتوں کا قیام ہمارے لئے تشویشناک بات ہے۔ اگر حکومت اس مقصد کیلئے آئینی ترمیم لائی تو اسے آئین کے اصولوں کے مطابق دیکھیں گے۔ ماہر آئین اور قانون وہاب الخیری ایڈووکیٹ نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ جاہل افراد کا مجموعہ ہے۔

ایسے قوانین بنانے کیلئے احمق لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ ملک میں متوازن عدالتی نظام نہیں چل سکتا اور نہ ہی آئین ا سکی اجازت دیتا ہے۔ فوجی عدالتوں کے قانون کو ہم مسترد کرتے ہیں متوازی نظام عدل آئین کی روح کیخلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے عدالتوں کے قیام کیلئے قانون سازی کی تو ہم اسے عدالتوں میں چیلنج کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک ہی نظام ہونا چاہئے۔۔ اگر حکومت مخلص ہے تو موجودہ عدالتی نظام میں اصلاحات لاکر اسے بہتر کرے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اس ٹولے میں شریک ہوکر ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاستدان نہیں بلکہ ایک احمق کھلاڑی ہے جسے قانون کا پتہ ہی نہیں۔ ان عدالتوں کا قیام ملکی بقاء کیلئے خطرناک ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی عدالتوں سے بہتر ہے کہ ملک میں مارشل لاء لگادیا جائے۔

ماہر قانون اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سینئر نائب صدر محمد اکرام چوہدری نے کہا کہ ہم فوجی عدالتوں کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ عدالتیں آئین سے متصادم اور آئین کے بنیادی تصور کی مخالف ہیں۔ سیاسی قیادت نے اقتدار کو بچانے کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج آرٹیکل 245 کے علاوہ کسی عدالتی نظام کا حصہ نہیں بن سکتی۔

پارلیمنٹ کو موجودہ آئین میں رہ کر ترمیم کرنی چاہئے۔ اگر پارلیمنٹ آئین سے متصادم کوئی ترمیم لائی تو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی بجائے موجودہ عدالتی نظام میں بہتری لائی جائے اور اس مقصد کیلئے قانون سازی کی جائے۔ ایڈووکیٹ اظہر نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فوجی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں۔

موجودہ عدالتی نظام میں کئی سقم موجود ہیں۔ تحقیقات نظام میں خامیاں ہیں۔ آرٹیکل 9 زندگی کا تحفظ دیتا ہے۔ فوجی عدالتیں اس آرٹیکل کے تحت بھی قائم ہوسکتی ہیں۔ آرٹیکل 245 کے تحت سویلین حکومت فوج کو طلب کرسکتی ہے۔ جب فوجی جج ہوں گے تو وہ دباؤ میں نہیں آئیں گے اور کسی خوف اور ڈر کے انصاف فراہم کریں گے۔ انہوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا