اس وقت بحث و مباحثوں او رپیچیدگیوں میں الجھنے کی بجائے عملی کاروائی کی ضرورت ہے، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی

بدھ 24 دسمبر 2014 23:05

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24دسمبر 2014ء) ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی بیان میں مذہبی شدت پسندی و دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے فوری اور موثر اقدامات کو وقت اور حالات کا تقاضا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت بحث و مباحثوں او رپیچیدگیوں میں الجھنے کی بجائے عملی کاروائی کی ضرورت ہے۔جس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت تاخیری حربوں کی بجائے عملی اقدامات کے ذریعے قوم کو مذہبی انتہا پسندوں کے چنگل سے آزاد کراکر ملک کو تمام مکاتب فکر اور عقائد سے تعلق رکھنے والوں کیلئے محفوظ ریاست بنائیں۔

بیان میں کہا گیا کہ اگر مذہبی دہشت گردی میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں فوجی عدالتیں موثر اور بہتر کردارادا کرسکتی ہیں تو اسکے قیام میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔

(جاری ہے)

مگر اس اقدام کیلئے ضروری ہے کہ فوجی عدالتیں ملک بھر میں قائم کرکے مذہبی دہشت گردی میں ملوث دہشت گردوں اور انکے سیاسی نمائندوں جو انکے اقدامات کو جائز ثابت کرنے کیلئے دن رات ایڑھی چھوٹی کا زور لگاکر تعصبات و نفرتیں پھیلا رہے ہیں کو بھی عبرت کا نشان بنانے کیلئے کردارا اد اکریں۔

ایسے مراکز جہاں انتہا پسندانہ نظریات اور نفرتیں پھیلانے میں کلیدی کردارکے حامل ہے انہیں بند کرکے اسلام کی غلط تشریح کے ذریعے ملک میں ہزاروں بے گناہ افراد کے قتل عام کا مقدمہ قائم کریں۔بیان میں اسپیڈی ٹرائل کورٹس کے قیام سے قبل ان مذہبی دہشت گردوں کے سزاوٴں پر عمل درآمد کو ضروری قرار دیاجو عرصہ دراز سے بلوچستان سمیت ملک کے مختلف جیلوں میں بے گناہ و معصوم شہریوں پر حملوں اور سینکڑوں افراد کے قتل عام میں ملوث رہے ہیں۔

ا ن مذہبی انتہا پسندوں کے کاروائیوں کے باعث اقوام عالم اور بین الاقوامی برادری میں ملک کا جس طرح امیج بناہواہے اس پر ہر باشعور پاکستانی کا سرشرم سے جکا رہتاہے۔اب اگر حکومت نے اس عزم کے ذریعے ملک کو دہشت گردی و مذہبی انتہا پسندی سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس حکومتی اقدام کے نتیجے میں پاکستان سے نفرتوں کے خاتمہ میں مدد ملے گی اور اقوام عالم میں ہمارے شہریوں کا سر اونچا ہونے کا ایک اچھا موقع میسر ہوگا۔

بیان میں کہا گیا کہ اگر شروع دن سے مذہبی انتہا پسندی کو ملکی پالیسی کا حصہ بناکر اسکی سرپرستی و آبیاری نہ کی جاتی اور ملک میں مذہب و عقیدے کے نام پر نفرتیں پھیلانے والے پہلے شخص کو عبرت کا نشان بنایا جاتا تو آج ملک اور عوام کو اتنے بڑے نقصانات سے دوچار نہ ہوتا پڑتا۔نہ ہی 60ہزار کے قریب شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور نہ ہی ملک کے دفاعی و اقتصادی شعبوں کو دچھکا لگتا۔بیان میں مذہبی دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمہ کے ہر حکومتی اقدامات کی حمایت کا اعلان کیاگیا۔