بلوچستان میں بیورو کریسی بے لگام ہوچکی ، حکومت ناکام ہوئی تو ذمہ دار بھی بیورو کریسی ہی ہوگی،میر سرفراز بگٹی،

منتخب عوامی نمائندوں کا احتساب نیب نہیں عوام کرسکتی ہے ‘ جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیا جائے تو تمام مسائل خودبخود حل ہو جائینگے، صوبائی وزیر داخلہ

منگل 23 دسمبر 2014 21:27

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 23 دسمبر 2014ء) بلوچستان میں بیورو کریسی بے لگام ہوچکی ہے اور اگر حکومت ناکام ہوئی تو اس کی ذمہ دار بھی بیورو کریسی ہی ہوگی بلوچستان کے منتخب نمائندوں نے اگر ڈیلیور نہیں کیا تو عوام کے پاس انہیں مسترد کرنیکا اختیار ہے ، منتخب عوامی نمائندوں کا احتساب نیب نہیں بلکہ عوام کرسکتی ہے ‘ جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیا جائے تو تمام مسائل خودبخود حل ہو جائینگے‘بلوچستان میں امن و امان کی صوتحارل میں بہتری آئی ہے ۔

آئین کے آرٹیکل 19-aکے تحت عوام کے پاس تمام سرکاری محکموں بارے معلومات حاصل کرنیکا حق موجود ہیں ۔یہ بات صوبائی وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی ‘ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ ‘ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر اسحاق بلوچ ‘ رکن صوبائی اسمبلی شمع اسحاق بلوچ ‘ ڈاکٹر تواب اچکزئی ‘تحریک انصاف کی رہنماء سکینہ عبداللہ خان ‘ سی پی ڈی آئی کے کوثر عباس اور دیگر نے کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں رائٹ آف انفارمیشن ایکٹ کے حوالے سے سی پی ڈی آئی کے زیر اہتمام منگل کو ہونیوالی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

(جاری ہے)

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پہلے بلوچ علاقوں میں انسرجنسی تھی مگر اب بد قسمتی سے پشتون علاقوں میں منتقل ہورہی ہے جس کی روک تھا ہماری ذمہ داری ہے ۔ ہمیں اچھی اور بُرے طالبان کی تمیز ختم کرنی ہوگئی پہلے جو گوڈ تھے آج وہ بیڈ ہیں اور جو آج گوڈ ہیں وہی کل بیڈ ہونگے ان سب کا خاتمہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے خو د کو تحریک طالبان پاکستان کہنے والے نہ تو تحریک ہیں نہ ہی طالب اور نہ اپنے منہ سے پاک وطن کا نام لیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں میڈیا کی قربانیوں کا احساس ہے مگر بدقسمتی سے انہیں معاشی فکر ہے ملک کی نہیں ۔ نالیاں اور روڈ بنانا بلدیاتی اداروں کا کام ہے مگر بدقسمتی سے اراکین اسمبلی کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے ۔ بلوچستان کے حالات بارے پورے ملک میں کہا جاتا تھا کہ یہاں انتخابات نہیں ہوسکتے مگر ہم نے اتنے پر امن بلدیاتی انتخابات کرائے کہ ایک پٹاخہ بھی نہیں پٹا جوکہ ملک توڑنے کی باتیں کرنیوالو ں کہ منہ پر تماچہ ہے ۔

بلوچستان میں بیورو کریسی بے لگام ہوچکی ہے اور میں اگر پولیس یا لیویز کو ٹھیک کرنے میں ناکام ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری بیورو کریسی پر عائد ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ رائٹ آف انفارمیشن پاکستان کے آئین کے تحت ہر شہری کا حق ہے امید ہے کہ جلد رائٹ آف انفارمین ایکٹ بلوچستان اسمبلی سے بھی پاس کر لیا جائیگا ۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے بلوچستان علاقوں میں صورتحال 80%جبکہ پشتون علاقوں میں 90%بہتر ہوئی ہے ۔

بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی تھی مگر پشتون علاقوں میں ملنے والی لاشیں در اصل دہشتگردوں اور اداروں کے درمیان لڑائی کا نتیجہ ہے ۔ انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے خواب دیکھنے والوں کو روز اول سے ناکامی ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوگی ۔ مجھے کوئی تبدیلی ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی جہاں تک مری معاہدہ کی بات ہے تو اس کی تصدیق ابتک نیشنل پارٹی یا مسلم لیگ ن کے مرکزئی قیادت نے نہیں کی ۔

سیاستدانوں پر کرپشن کا الزام لگانے والے ذرا اپنے گریبانوں میں دیکھے کہ اس ملک پر کس نے کتنے عرصہ حکومت کی ہے اور پاکستان کے 1000امیر خاندانوں میں سے فوجی جرنیل کے کتنے خاندان ہیں پاکستان کے بجٹ کا اسی فیصد فوج پر خرچ کیا جاتا ہے اور باقی بیس فیصد عوام پر اس سے کیسے ترقی آئیگی ۔ ایک F-16طیارے پر جتنا خرچہ آتاہے اس سے 5000پرائمری سکول بن سکتے ہیں اور ایک ٹینک پر جتنا خرچہ آتا ہے اس سے 800سکول بن سکتے ہیں پھر بھی سیاستدانوں کو بدنام کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان عوام کیلئے کیری لوگر بل دیا مگر اس پر واویلا مچایا گیا اور مسترد کیا گیا صرف اس وجہ سے کہ اس میں فوجی امداد نہیں تھی ۔

پاکستان میں سیاستدانوں نے ضرور کرپشن کی ہے مگر سب سے زیادہ کرپشن سول اور ملٹری بیوروکریسی نے کی ہے ۔ عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت تب آئیگی جب پاکستان میں حقیقی زرعی اصلاحات لائی جائیگی اور مزاروں کو وڈیروں اور جاگیر داوں سے نجات دلائی جائیگی ۔ ہم پر کرپشن کا الزام لگانے والے اپنے گریبانوں میں دیکھے اس وقت بھی سابقہ حکومت کے دو ڈائریکٹر تعلیم جیل میں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اداروں بارے معلومات عوام کا حق ہے اور اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین بھی اس ہی کی پابند کرتا ہے لہذا اس پر عملدرآمد کیلئے صوبے میں فوری طور پر قوانین بننے چاہیے ۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے مرکزئی رہنما ڈاکٹر اسحاق بلوچ کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں صر ف 8قوانین بنائے گئے جبکہ ہم نے ڈیڑھ سال میں 10قوانین اسمبلی سے پاس کرواکر بنا دئیے ہیں اور 18سے زائد اس وقت کابینہ کی منظوری کے منتظر ہیں جسے بھی جلد نافذ کیا جائیگا ۔اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے رشید خان ناصر نے بھی خطاب کیا ۔

متعلقہ عنوان :