پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی نے پاکستان میں مرگی کے علاج کے لیے اپنی نوعیت کی پہلی گائیڈ لائنز جاری کر دی،

مرگی کادورہ دماغ میں برقی خلل کی وجہ سے بنتا ہے۔ یہ دماغی خلل پورے جسم پر اثر انداز ہوتاہے،ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

پیر 22 دسمبر 2014 22:27

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22دسمبر 2014ء) پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی نے پاکستان میں مرگی کے علاج کے لیے اپنی نوعیت کی پہلی گائیڈ لائنز جاری کر دی ہے ۔یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی دستاویز ہے جس میں مرگی کے ہر عمر کے مریضوں کے علاج کے لیے الگ الگ 50سے زائد گائیڈ لائنز جاری کی گئی ہیں ۔جس میں ڈاکٹروں اور مریضوں کو احتیاط کے ساتھ ساتھ علاج کے مختلف طریقے بتائے گئے ہیں ۔

مرگی کے مریضوں کے لیے کے لیے گائیڈ لائن کو جلد پاکستان سوسئاٹی آف نیورولوجی شائع کرے گی جسے ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ عام افراد میں بھی تقسیم کیا جائے گا تاکہپاکستان میں مرگی کے علاج پر قابو پایا جا سکے ۔ آغاخان اسپتال کی دماغی امراض کی ماہر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے تحت14عالمی نیورولوجی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں دولاکھ افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں جن میں سے 50 ہزار مریض مرگی کا علاج کروارہے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ افراد مرگی کے علاج سے دور ہیں۔

(جاری ہے)

مرگی کادورہ دماغ میں برقی خلل کی وجہ سے بنتا ہے۔ یہ دماغی خلل پورے جسم پر اثر انداز ہوتاہے۔ انہوں نے مرگی کے علاج کے لیے گائیڈ لائنز دیتے ہوئے بتایا کہ مرگی کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی بڑی تعداد ایسی ہے جنہیں تربیت دینے کی ضرورت ہیں ، عام افراد کی طرح ڈاکٹروں کی اکثریت بھی مرگی کے مرض سے لاعلم ہوتی ہے اور اس کی تشخیص نہیں کر پاتی ۔ انہوں نے کہا کہ مرگی کے تمام مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کسی نہ کسی دوا پر رکھا جائے اور پاکستان میں بہت سی دوائیں ایسی ہیں جو سستی ہیں ، پاکستان میں ایسی دوائیں بھی موجود ہیں جو 10روپے میں پورا مہینہ استعمال کی جا سکتی ہیں ، ایسے افراد جو مہنگی دوائیں استعمال نہیں کر سکتے وہ ان سستی دواؤں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں ، عورتوں اور بڑی عمر کے افراد کے علاج کے لیے الگ الگ گائیڈ لائنز ہیں ۔ ایسی خواتین جو حاملہ ہیں وہ احتیاط کے ذریعے تندرست اور نارمل بچہ کو جنم دے سکتی ہیں ۔ پاکستان میں مختلف اقسام کی مرگی موجود ہے جس کی درست تشخیص کے بعد ہی اس کے مطابق علاج کی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں اس کے لیے ڈاکٹروں کو مرگی میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔

مختلف انسانوں میں یہ دورے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مرگی کی بیماری سے متعلق منفی تاثرات پائے جاتے ہیں ،پاکستان میں مرگی کا مرض عموماً پیدائش کے عمل ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث لاحق ہوتا ہے۔ مرگی ایک ایسی بیماری ہے جس کے متعلق سب سے زیادہ توہمات پائی جاتی ہیں۔ اس کو اکثر جادو ٹونا سمجھا جاتا ہے اور مرگی کے مریضوں کو آسیب زدہ یا مجذوب کہا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے اس بیماری کے حوالے سے آگاہی کی کمی کے باعث بہت سے توہمات نے جنم لیا ہے جن میں مرگی کو ذہنی معذوری یا جادو سے تشبیہ دی جاتی ہے اور ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن میں مرگی کے مریضوں کو باندھ دیا جاتا ہے یا زدوکوب کیا جاتا ہے۔ مرگی کے زیادہ تر مریض نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ ڈپریشن شامل ہے۔ڈاکٹروں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ایسے مریضوں کو کس طرح علاج کی سہولت پہنچانی ہے ۔

گائیڈ لائنز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مرگی کے مریضوں کو اگر گھر میں جھٹکے آئیں تو انہیں کیسے علاج کیا جائے اور اگر اسپتال میں جھٹکے آئیں تو ڈاکٹروں کیسے انہیں علاج کی سہولت فراہم کریں ۔انہوں نے کہا کہ مرگی کے 90فیصد مریض اپنے مرض پر قابو پاسکتے ہٰں اور عام انسان کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں ، وہ ڈاکٹر ، استاد اور کسی بھی شعبے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مرگی کے مرض کا پھیلاؤ ایک فیصد ہے۔مرگی کے علاج کے لیے کئی مختلف طریقہ کار موجود ہیں اور اس کے ستر فیصدکیسز کو مناسب تشخیص اور علاج کے ذریعے قابو کیا جا سکتا ہے۔وہ مریض جن کا مرض دوائیوں کے ذریعے قابو میں نہ آئے، ان کے لیے سرجری کا طریقہ موجود ہے۔

متعلقہ عنوان :