سفاک درندوں کا تعلق کسی مذہب اور مسلک سے جوڑناحقائق کے بر خلاف ہو گا،حافظ محمد طاہر محمود اشرفی ،

تمام مسالک اور مذاہب کی قیادت سانحہ پشاور کو پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے خلاف سفاکانہ ، مجرمانہ اقدام سمجھتی ہے،حکومت کو سانحہ پشاور کے بعد اب اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی پر از سر نو غور کرنا چاہیے، مرکزی چیئرمین پاکستان علماء کونسل

پیر 22 دسمبر 2014 20:22

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22دسمبر 2014ء) پاکستان علماء کونسل نے ملک کی موجودہ صورتحال ، سانحہ پشاور کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور دیگر قومی امور پر لائحہ عمل طے کرنے کے لیے 30 دسمبر کو لاہور الحمراء ہال میں 2000 سے زائد علماء و مشائخ کی پیغام اسلاف کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے ۔ پاکستان علماء کونسل اور ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین ، تمام مکاتب فکر اور مذاہب کی قیادت سانحہ پشاور کی شدید مذمت کر چکی ہے اور ہم تمام مکاتب فکر ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سانحہ پشاور پرپیدا ہونے والی قومی وحدت کو اختلاف اور انتشار میں بدلنے والے عناصر کو روکیں ۔

یہ بات پاکستان علماء کونسل کے مرکزی چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر ان کے ہمراہ دیگر مسالک اور مذاہب کے قائدین اور پاکستان علماء کونسل کے ذمہ داران مولانا زاہد محمود قاسمی ، مولانا حافظ محمد امجد ، مولانا محمد ایوب صفدر، مولانا مشتاق احمد لاہوری، اور مسیحی رہنما بشپ منورومال شا اور دیگر بھی موجود تھے ۔

انہوں نے کہا کہ تمام مسالک اور مذاہب کی قیادت سانحہ پشاور کو پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے خلاف سفاکانہ ، مجرمانہ اقدام سمجھتی ہے ۔ ایسا کرنے والے کسی مسلک اور مذہب کے نمائندہ نہیں ہو سکتے اور ایسے سفاک درندوں کا تعلق کسی مذہب اور مسلک سے جوڑناحقائق کے بر خلاف ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی ، فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف تمام مذاہب اور مسالک کی قیادت کو بھی اعتماد میں لے ۔

پاکستان کی مذہبی قوتیں اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی سلامتی اور استحکام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت اور پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔ حکومت کو سانحہ پشاور کے بعد اب اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی پر از سر نو غور کرنا چاہیے اور پاکستان کی سر زمین کو مکمل طور پر دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے واضح پالیسی اپنانی چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بعض عناصر سانحہ پشاور کے بعد قومی وحدت کو نقصان پہنچانے کے لیے علماء اور مدارس کے خلاف پراپوگنڈے میں مصروف ہیں ۔ پاکستان علماء کونسل ، وفاق المدارس العربیہ ، وفاق المساجد پاکستان اور تحفظ مدارس دینیہ کے تحت ملک میں 16 ہزار سے زائد مدارس موجود ہیں جہاں پر نہ کوئی دہشت گردی کا کیمپ ہے اور نہ ہی وہاں پر دہشت گردی کا درس دیا جاتا ہے ۔

ہم حکومت سے ملک کے حساس اداروں سے ، وزارت داخلہ سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ ایسے اداروں کی نشاندہی کریں جہاں پر دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہو اور جہاں پر دہشت گرد موجود ہوں ہم خود ان کے خلاف ایکشن لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ 9/11 کے بعد پاکستان کے اندر تکفیری سوچ اور نظریات کو پروان چڑھایا گیا ہے اور اس تکفیری سوچ اور نظریات نے پاکستان کے نوجوانوں کو متاثر کیا ہے لیکن پاکستان علماء کونسل سمیت بہت سی جماعتیں اس تکفیری سوچ اور نظریے کے خلاف کام کر رہی ہیں اور یہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سوچ اور نظریے کے خاتمے کے لیے ایک جامع پالیسی بنائے ۔

انہوں نے کہا کہ جس معاشرے کے اندر جزا ء اور سزا کا عمل ختم ہو جاتا ہے تو وہ معاشرہ جنگل سے بدتر ہو جاتا ہے ۔ حکومت کا سزائے موت بہال کرنے کا فیصلہ اطمینان بخش ہے لیکن اس پر عمل درآمد تمام مجرموں کے لیے ہونا چاہیے۔ قاتل قاتل ہوتا ہے اس کا نہ کوئی مسلک ہوتا ہے ، نہ کوئی عقیدہ اور نہ کوئی مذہب اور نہ ہی قاتل سے رعایت کی جانی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کے لیے اور امن امان کی بالا دستی کے لیے پاکستان علماء کونسل نے ماہ ربیع الاول کو ماہ رحمت للعالمین کے طور پر منانے اور ملک بھر کے اندر رسول اکرم کے ولادت کے مہینے کی نسبت سے سیمینار ز ، کانفرنسیں اور کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں رسول اکرم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں عوام الناس ، علماء ، نوجوانوں ، مدارس عربیہ کے طلباء کی رہنمائی کی جائے گی ۔

ان کانفرنسوں ، سیمینارز اور کنونشنز میں تمام مسالک اور مذاہب کے قائدین کو مدعو کیا جائے گا تا کہ وہ سیرت مصطفی کی روشنی میں امن ، رواداری ، انسانی حقوق کو اجاگر کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ 26 دسمبر کو دہشت گردی ، فرقہ وارانہ اور بین المذاہب تشدد کے خلاف یوم امن منایا جائے گا اور وفاق المساجد پاکستان کے تحت 73000 سے زائد مساجد میں علماء ، خطباء ، مقررین ، واعظین اور ذاکرین دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کی مذمت کریں گے اور پشاور سانحہ میں شہید ہونے والے شہداء کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :