وفاقی وزیرداخلہ کا دعویٰ مستردکرتے ہیں،مولانا عبدالعزیز ہی لال مسجد کے خطیب ہیں اور تاحیات وہی رہیں گے،شہداء فاؤنڈیشن ،

سپریم کورٹ نے مولانا عبدالعزیز کو خطیب لال مسجد تسلیم کیا تھا،مولانا عبدالغفار اور مولانا عامر صدیق کی تعیناتی مولانا عبدالعزیز کی رہائی سے مشروط تھی، مولانا عبدالعزیز کی رہائی کے بعد مولانا عبدالغفار نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں خطیب لال مسجد کا منصب چھوڑ دیا،عامر صدیق تاحال اپنے منصب پر براجمان ہیں،وضاحتی بیان

پیر 22 دسمبر 2014 19:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22دسمبر 2014ء) شہداء فاؤنڈیشن آف پاکستان نے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے گزشتہ روز کی جانے والی پریس کانفرنس کے دوران خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز کے متعلق ریماکس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ”وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے گزشتہ روز کی جانے والی پریس کانفرنس کے دوران خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز کے متعلق ریماکس حقائق کے خلاف ہیں۔

شہداء فاؤنڈیشن واضح کرتی ہے کہ مولانا عبدالعزیز لال مسجد کے خطیب ہیں ،وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کا یہ کہنا درست نہیں کہ مولانا عبدالعزیز کے بھانجے مولانا عامر صدیق لال مسجد کے خطیب ہیں۔شہداء فاؤنڈیشن سمجھتی ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے مولانا عامر صدیق کو لال مسجد کا خطیب اپنے ناقص علم کی بنیاد پر قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

اگر وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار حقائق سے واقف ہوتے تو وہ کبھی مولانا عبدالعزیز کی جگہ مولانا عامر صدیق کو لال مسجد کا خطیب قرار نہ دیتے۔شہداء فاؤنڈیشن وفاقی وزیرداخلہ کے ریکارڈ کی درستگی کے لئے واضح کرنا چاہتی ہے کہ جولائی 2007میں لال مسجد آپریشن کے دوران مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کے بعد حکومت وقت نے مولانا اشفاق احمد کو لال مسجد کا سرکاری خطیب مقرر کیا تھا۔

27جولائی 2007کو مولانا عبدالعزیز کی جگہ حکومت کی جانب سے منتخب کردہ سرکاری خطیب مولانا اشفاق احمد نماز جمعہ کی امامت کے لئے لال مسجد آئے تو لال مسجد کے نمازیوں نے مولانا عبدالعزیز کی جگہ کسی کو بھی لال مسجد کا خطیب ماننے سے انکار کرتے ہوئے سرکاری خطیب مولانا اشفاق احمد کو لال مسجد سے نکال دیاتھا۔اس صورتحال کے بعد اس وقت کی حکومت نے لال مسجد کو سیل کردیا تھا۔

بعدازاں لال مسجد کی خطابت کا معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں گیا۔سپریم کورٹ کے جسٹس نواز عباسی اور جسٹس فقیرمحمد کھوکھر پر مشتمل دورکنی بینچ نے تمام تر معاملات کا جائزہ لینے کے بعد شہدائے لال مسجد کے ورثا اور بالخصوص مولانا عبدالعزیز و ام حسان کی سفارش کی روشنی میں 2اکتوبر 2007کو لال مسجد آپریشن کیس کا عبوری فیصلہ سنایا۔سپریم کورٹ نے اپنے 2اکتوبر 2007کے فیصلے میں مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد کا خطیب تسلیم کرتے ہوئے یہ حکم دیا تھا کہ”مولانا عبدالعزیز کی رہائی تک مولانا عبدالغفار(مہتمم جامعہ فریدیہ ) کو خطیب لال مسجد اور مولانا عامر صدیق(بھانجا مولانا عبدالعزیز) کونائب خطیب لال مسجد کے طور پر تعینات کیا جائے“۔

سپریم کورٹ نے اپنے2اکتوبر 2007کے فیصلے میں مولانا عبدالغفار کی خطیب کی حیثیت سے اور مولانا عامر صدیقی کی نائب خطیب کی حیثیت سے تعیناتی کو مولانا عبدالعزیز کی رہائی سے مشروط کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اگست 2008میں مولانا عبدالعزیز کی رہائی کے بعد مولانا عبدالغفار نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں خطیب لال مسجد کا منصب دوبارہ مولانا عبدالعزیز کے حوالے کردیا تھا لیکن مولانا عامر صدیق تاحال لال مسجد کے نائب خطیب کے منصب پر موجود ہیں۔

ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ نے ناقص معلومات کی بنیاد پر مولانا عبدالعزیز کے خطیب لال مسجد ہونے کی نفی کرتے ہوئے مولانا عامر صدیق کو لال مسجد کا خطیب قرار دیا ہے۔تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے شہداء فاؤنڈیشن واضح کرنا چاہتی ہے کہ مولانا عبدالعزیز لال مسجد کے خطیب اور مولانا عامر صدیق لال مسجد کے نائب خطیب ہیں اور مولانا عبدالعزیز ہی تاحیات لال مسجد کے خطیب رہیں گے۔شہداء فاؤنڈیشن توقع کرتی ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اپنے منصب کا خیال رکھتے ہوئے اپنے ریکارڈ کو درست کریں گے اور آئندہ ناقص معلومات کی بنیاد پر قوم کو گمراہ نہیں کریں گے