ایبولا کو ختم کر کے ہی دم لیں گے، اس وائرس کے خلاف جنگ کو درمیان میں نہیں چھوڑا جا سکتا ،بان کی مون

اتوار 21 دسمبر 2014 14:11

نیو یا رک( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 21 دسمبر 2014)اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ ایبولا وائرس کے خلاف اقدامات پہلے کی طرح جاری رہیں گے۔ اس وائرس کے خلاف جنگ کو درمیان میں نہیں چھوڑا جا سکتا۔ برطا نو ی خبر رساں ادارے سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ متاثرہ علاقوں میں سیاسی عدم استحکام اور تنازعات کی وجہ سے اس مشن کو جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔

یہ ایک انتہائی خطرناک وبا ہے، جو فوری توجہ مانگتی ہے اور اسی وجہ سے اسے ختم کرنے کے لیے بہت دیر انتظار نہیں کیا جا سکتا۔“ بان کی مون ایبولا سے متاثرہ ممالک کا پہلی مرتبہ دورہ کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ایبولا کے خلاف رواں برس ستمبر میں یہ مشن شروع کیا گیا تھا۔ UNMEER کا مقصد اس تناظر میں حکمت عملی تیار کرنا، متاثرہ ممالک میں اس وائرس کی روک تھام کے لیے سامان کی نقل و حمل کو یقینی بنانا اور سرکاری و نجی سطح پر آگاہی کے منصوبے شروع کرنے کے علاوہ اس وائرس کے روک تھام پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے امدادی ملاقاتوں کا اہتمام کرنا بھی شامل ہے۔

(جاری ہے)

بان کی مون نے کہا کہ ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کہ یہ مشن کب تک جاری رہے گا تاہم یہ یقینی ہے کہ یہ کوئی طویل المدتی بنیادوں پر جاری نہیں رہے گا۔“ ایبولا سے سب سے متاثرہ ہونے والے ممالک لائبیریا، سیرا لیون اور گنی میں اب تک سات ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اپنے 36 گھنٹوں کے دورے کے دوران بان کی مون نے ان تینوں ممالک میں طبی مراکز کا دورہ کیا۔

ان کے اس دورے کا مقصد عالمی برادری کی توجہ ایک مرتبہ پھر اس وائرس کی جانب مبذول کرانا اور ایبولا کے خلاف سرگرم کارکنوں کی ہمت بڑھانا تھا۔ بان کی مون کے مطابق، ” انہیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ایبولا کے مریضوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے مالی کے صدر سے بھی ملاقات کی۔ مالی میں ابھی حال ہی میں آٹھ افراد میں ایبولا کی نشاندہی ہوئی ہے۔

گنی کے دورے کے دوران انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایبولا کی روک تھام کے لیے قائم کیے جانے والے مراکز میں ذمہ داریاں نبھانے والے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک فوری طور پر بند کیا جائے۔ہر مرکز پر بان کی مون کا درجہ حرارت لیا گیا اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ جراثیم کش پانی سے دھوئیں ہیں یا نہیں۔ اس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ کوئی بھی شخص حفاظتی انتظامات سے بالا تر نہیں ہے۔۔