پشاور میں بچوں کے قتل عام پرموثر رد عمل لازمی ہے،ایچ آر سی پی،

یہ وقت محض عوامی ہمدردیاں جیتنے یا لفاظی سے رائے عامہ کا رُخ موڑنے کا نہیں ہے،بیان

جمعرات 18 دسمبر 2014 20:27

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آر سی پی) نے پشاور میں بچوں کے قتل عام کے واقعے کی فوری اورجامع تحقیقات کرنے اور قوم کی مستقبل کے قاتلوں کے بلواسطہ یا بلاواسطہ معاونت کرنے والے تمام عناصر کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔کمیشن نے اپنے ایک بیان میں کہا: ایچ آر سی پی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ پشاور میں خوفناک غارت گری پر انتقامی یا جذباتی ہونے کی بجائے نہایت سوچا سمجھا اور موثر رد عمل ظاہر کیا جائے۔

یہ وقت محض عوامی ہمدردیاں جیتنے یا لفاظی سے رائے عامہ کا رُخ موڑنے کا نہیں ہے۔ ایچ آر سی پی کو یقین ہے کہ پھانسیوں پر غیر رسمی پابندی پر نظرثانی کرنے سے پاکستان کو درپیش چیلنج حل نہیں ہوگا۔ تحقیقاتی نظام اور عمومی طور پر پورے فوجداری نظام انصاف میں موجود خامیوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ محض سزا کی بجائے منصفانہ سزا کو یقینی بنایا جائے۔

(جاری ہے)

یہ بھی ضروری ہے کہ انتہا پسندی یا نفرت انگیز تقاریر میں ملوث تمام افراد اور گروہوں کاسزا سے استثنیٰ ختم کیا جائے۔ الفاظ کی حد تک کالعدم انتہا پسند جنگجو گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی میں بھی مزید تاخیر مہلک ہوگی۔ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ پشاور میں بچوں پر المناک حملے کے تمام پہلوؤں سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ ایسے قیامت خیز سانحے کی معلومات کی فراہمی صرف نیوز میڈیا کے ذریعے ہی کافی نہیں تھی۔

عوام کا مطالبہ ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ قوم کے مستقبل کے معماروں پر بدترین دہشت گردانہ حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی بلواسطہ یا بلاواسطہ مدد کرنے والے تمام عناصر کو بے نقاب کرنے کے لیے بلاتاخیر مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ قتل عام کے وقوعے کی پیشگی نشاندہی کرنے میں خفیہ معلومات کے ڈھانچے کی ناکامی کی وجوہات کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔

وقوعے کے تحقیقاتی عمل میں افغانستان میں ہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کے حمایتی سلسلے کے تمام روابط کا جائزہ لیا جائے۔” ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ بے رحمی سے ذبح کیے گئے ہمارے بچوں اور ان کے والدین نے ریاست کی ناقص سمت بندی اورعقیدے کے نام پر عدم رواداری کو فروغ دینے کی ایک بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اب یہ ضروری ہے کہ ماضی کی اس روش کو ترک کیا جائے اور تمام متعلقہ فریقین یکساں موقف اپنائیں اور ایک مربوط انسداد دہشت گردی پالیسی کے ذریعے اس دائمی غارت گری کا خاتمہ کریں۔

یہ امید کی جانی چاہئے کہ اچھے اور برے طالبان کے روایتی نقطہ نظر کو ترک کرنے کے حالیہ عہد کاپاس رکھا جائے۔” یہ بات سب پر واضح ہونی چاہئے کہ دہشت گردوں کی حمایت کرنے سے محض دہشت گردی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس بات کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے کہ دہشت گردوں سے تعلقات رکھنے والے یا ان کے سرگرم حمایتی اپنے کیے پر نادم ہیں۔ یہ غم زدہ قوم مطالبہ کرتی ہے کہ و ہ سیاسی جماعتیں جوان سفاک قاتلوں سے قطع تعلق کرنے سے انکار ی ہیں یا جو ان کا دفاع کرنے پر کمربستہ ہیں انہیں کسی کی بھی نمائندگی کرنے کا حق حاصل نہیں ہونا چاہئے۔

” اس امرپر سب متفق ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی ایک علاقائی مسئلہ ہے۔ اگر یہ دونوں ممالک طالبان اور دیگر دہشت گردوں سے ان کی محفوظ پناہ گاہوں سے چھین لیں تو ان کے پاس انسانیت کو لاحق اس سنگین خطرے کو ختم کرنے کا ایک بہترین موقع ہوگا۔” لوگ یہ پوچھنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ یہ کیسی ریاست ہے کہ جہاں مٹھی بھر لوگ آتے ہیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیتے ہیں۔ کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ اگر ہم ان سنگین حالات میں بھی کوئی موثراقدام کرنے میں ناکام رہے تو مہذب اقوام کی فہرست میں پاکستان کا نام برقرار رکھنا مشکل ہو جائیگا۔

متعلقہ عنوان :