سزائے موت پر عملدرآمد ، مختلف جیلوں میں قید کم از کم 17 مجرموں کی فہرست تیار ، پہلے مرحلے میں پھانسی دی جائے گی ،

مجرموں میں راولپنڈی میں جی ایچ کیو، کامرہ میں فضائیہ کے اڈے سمیت اہم فوجی اور سویلین تنصیبات پر حملہ کرنیوالے شدت پسند بھی شامل ہیں، اہم نام عقیل عرف ڈاکٹر عثمان نامی دہشت گرد کا ہے جو اس وقت فیصل آباد کی جیل میں قید ہے، وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار کی برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو

جمعرات 18 دسمبر 2014 19:11

سزائے موت پر عملدرآمد ، مختلف جیلوں میں قید کم از کم 17 مجرموں کی فہرست ..

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18دسمبر 2014ء) پاکستان میں حکام نے وزیرِ اعظم کی جانب سے دہشت گروں کی سزائے موت پر عملدرآمد کی اجازت دئیے جانے کے بعد ملک کی مختلف جیلوں میں قید کم از کم 17 مجرموں کی فہرست تیار کی ہے جنھیں پہلے مرحلے میں پھانسی دی جائے گی۔ وفاقی وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ ان مجرموں میں راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر اور کامرہ میں فضائیہ کے اڈے سمیت اہم فوجی اور سویلین تنصیبات پر حملہ کرنے والے شدت پسند بھی شامل ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان 17 افراد میں سے دس پنجاب، چھ سندھ اور ایک خیبر پختونخوا کی جیل میں قید ہے اور پنجاب میں زیادہ تر یہ قیدی فیصل آباد اور بہاولپور کی جیلوں میں ہیں۔

(جاری ہے)

اہلکار نے بتایا کہ ان کے ناموں کا انتخاب وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار اور وزیرِ اعظم نواز شریف کی ملاقات میں کیا گیا تھا جس کے بعد یہ فہرست صدرِ مملکت کو بھیجی گئی۔

وزارتِ داخلہ کے اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر مملکت کی جانب سے ان تمام مجرموں کی رحم کی اپیلیں مسترد کر دی گئی ہیں۔سزاوٴں پر عملدرآمد کے حوالے سے اہلکار کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ضروری دفتری کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے اور جلد از جلد سزائے موت کے احکامات پر عمل ممکن بنایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں ایک اہم نام عقیل عرف ڈاکٹر عثمان نامی دہشت گرد کا ہے جو اس وقت فیصل آباد کی جیل میں قید ہے۔

عقیل عرف ڈاکٹر عثمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا بنیادی تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے ہے اور انھیں اکتوبر 2009 میں جی ایچ کیو پر ہونے والے حملے کا منصوبہ ساز سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے بعد پھانسی کی سزاوٴں پر عمل درآمد کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔تاہم اگست 2013 میں تحریک طالبان پاکستان نے حکومت پنجاب اور حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کو دھمکی دی تھی کہ اگر عقیل سمیت ان کے چار ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تو پنجاب حکومت کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا جائے گا۔

اس دھمکی کے بعد حکومت کی جانب سے اگرچہ ملک میں سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم تو جاری نہیں کیا گیا تاہم نواز شریف کے اس دورِ حکومت میں تاحال کسی بھی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی ہے۔اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روک دیا تھا اور 2008 سے 2013 کے دوران صرف دو افراد کو پھانسی دی گئی تھی اور ان دونوں کو فوجی عدالت سے پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔

2012 تک کے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں 641، سندھ میں 131، خیبر پختونخوا میں 20 جبکہ بلوچستان میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت موت کی سزا پانے والوں کی تعداد 26 ہے۔ تاہم ان مجرموں میں سے 10 سے 12 فیصد قیدی ہی ایسے ہیں جنھیں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی گئی ہے۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سارہ بلالکے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں اس وقت ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب ایسے قیدی ہیں جنھیں موت کی سزا سنائی جا چکی ہے اور ان کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں۔

تاہم ایک غیر سرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان مجرموں میں سے 10 سے 12 فیصد قیدی ہی ایسے ہیں جنھیں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی گئی ہے۔بی بی سی اردو سے گفتگو میں سارہ بلال نے بتایا تھا کہ 2012 تک کے اعدادوشمار کے مطابق ’پنجاب میں 641، سندھ میں 131، خیبر پختونخوا میں 20 جبکہ بلوچستان میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت موت کی سزا پانے والوں کی تعداد 26 ہے۔‘