جڑواں شہروں میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی شرح کم

جمعرات 18 دسمبر 2014 14:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 دسمبر 2014ء) جڑواں شہروں میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی شرح بہت کم ہے جس کی بنیادی وجہ شواہد کا نہ ملنا بھی ہے۔ تفصیلات کے مطابق 2014ء میں دہشت گردی کی عدالتوں میں عدم شواہد کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں فر د جر م عا ئد کر نے کی شرح کم رہی ہے۔ راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے 205 کیسوں کی سماعت کی جس میں دس افراد پر فرد جرم عائد کی جاسکی۔

یہ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے مقابلے میں بہتر کارکردگی ہے کیونکہ اسلام آباد کی عدالت نے کسی ایک شخص پر بھی فرد جرم عائد نہیں کی۔ یہ پاکستان پراسیکیوشن میں خامیوں کی ایک وجہ بھی ہے اور دوسرا جوڈیشل سسٹم بھی ایک وجہ ہے۔

(جاری ہے)

گذشتہ روز پشاور میں کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ قوانین میں ریفارمز اور بلاتفریق دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔

کسی بھی شخص نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ عدالتوں میں دہشت گردوں پر فرد جرم عائد ہیں لیکن تحقیقات میں شواہد نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد سزا سے بچ جاتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق 2000ء سے 2007ء تک ملک بھر میں دہشت گرد انتہائی مطلوب ہیں جنہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کئے تھے۔ لشکر جھنگوی کے اہم کمانڈر ملک اسحق پر تین کیسوں کیلئے شواہد چاہئیں۔

ملک اسحق پر تین مختلف ایف آئی آر رجسٹرڈ ہیں جن میں سیکشن 9 اور 11 انسداد دہشت گردی کے ہیں جو مذہبی انتہاء پسندی کے کیس ہیں۔ 2012ء میں جہلم‘ چکوال اور اٹک میں ایف آئی آر رجسٹرڈ ہیں۔ ملک اسحق 1990ء میں سپاہ صحابہ کے ممبر تھے۔ سپاہ صحابہ پر پابندی کے بعد لشکر جھنگوی نامی تنظیم بنائی گئی۔ فروری 2014ء میں امریکہ نے انتہائی مطلوب شخص کی فہرست میں نام ڈالا تھا اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم قرار دیا کیونکہ اس سے پہلے 100 لوگوں کے قتل میں یہ ملوث تھا اور 2009ء میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے میں بھی یہ ملوث پایا گیا۔

گذشتہ سال انسداد دہشت گردی عدالت نے پرویز مشرف پر حملے میں ملوث رانا فقیر پر فرد جرم عائد کی۔ یہ ملزمان آئی ایس آئی کی بس پر حملے میں بھی ملوث تھے۔ ان ملزمان کو 2012ء میں رہا کیا گیا ان کے علاوہ مزید کیسز میں بھی یہ ملزمان مطلوب ہیں۔