پشاور میں پبلک سکول پر حملہ کر نے والے دہشتگرد اپنے گروپ کے سربراہ سے ہدایات لیتے رہے۔۔۔

حملہ آوروں میں سے ایک کی شناخت ابوزر کے نام سے ہوئی ہے ‘ منصوبہ ساز کا نام عمر ہے ‘ رپورٹ

جمعرات 18 دسمبر 2014 13:57

پشاور میں پبلک سکول پر حملہ کر نے والے دہشتگرد اپنے گروپ کے سربراہ سے ..

پشاور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 دسمبر 2014ء) پشاور میں پبلک سکول پر حملہ کر نے والے دہشتگرد اپنے گروپ کے سربراہ سے ہدایات لیتے رہے نجی ٹی وی کے مطابق ایک سیکیورٹی آفیشل نے بتایا کہ پشاور میں کیے گئے دلخراش حملے میں یہ حملہ آوروں کی اپنے ہینڈلر سے کی جانے والی آخری گفتگو میں سے ایک تھی جو دونوں خودکش بمباروں نے اسکول میں آپریشن کیلئے موجود فوجیوں پر حملہ کرنے سے قبل اس حملے کے منصوبہ ساز سے کی۔

پشاور کے وارسک روڈ پر کیے جانے والے حملے اور ساڑھے سات گھنٹے تک محاصرے کے دوران حملہ آوروں اور منصوبہ ساز کے درمیان ایسی اور اس طرح کی دیگر گفتگو کی ریکارڈنگ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغان حکام کے حوالے کیں نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان کے پاس حملہ آوروں کے نام اور ان کی گفتگو کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔

(جاری ہے)

حملہ آوروں میں سے ایک کی شناخت ابوزر کے نام سے ہوئی ہے ‘ حملے کے منصوبہ ساز کا نام عمر ہے۔

عمر ادی زئی شدت پسندوں کے سینئر کمانڈر ہیں جو پشاور کے سرحدی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔سیکیورٹی حکام کے مطابق عمر نے افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع نازیاں سے ہدایات جاری کیں اور افغان حکام سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔سیکیورٹی حکام کے مطابق سات دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کیا جس میں سے پانچ نے خود کو انتظامی بلاک کے اندر جبکہ دو نے باہر دھماکے سے اڑا لیا۔

حملہ آور خاردار تاریں کاٹ کر سیڑھی کی مدد سے عمارت کے پچھلے حصے سے داخل ہوئے۔ انہوں نے سیدھے مرکزی آڈیٹوریم کی راہ لی جہاں ایک استاد اسکول کے سینئر طلبا کو ابتدائی طبی امداد کے حوالے سے معلومات فراہم کر رہے تھے۔ایک سیکیورٹی آفیشل نے کہا ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا حملہ آوروں کو پہلے سے مرکزی ہال میں تقریب کے انعقاد کا علم تھا؟ ابھی تک ہم اسی حوالے سے لاعلم ہیں اور یہ وہ ان سوالات میں سے ایک ہے جن کے جوابات ہم جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عمارت کے پچھلے حصے میں پڑے ہوئے خون سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ آڈیٹورم کے پچھلے حصے میں موجود چوکیدار اس حملے کا پہلا نشانہ بنا۔جوابی حملے میں حصہ لینے والے ایک آفیشل کے مطابق پچھلا دروزہ بند ملنے پر دہشت گروں نے مرکزی خارجی اور داخلی دروازوں کی راہ لی اور یہیں اصل قتل عام ہوا۔ دونوں ہی جانب پڑا ہوا خون اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ یہاں بھیانک خونریزی کی گئی ہے۔

افسر نے بتایا کہ یہاں انسانی جانوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جن میں سے اکثر مردہ جبکہ کچھ زندہ بھی تھے، کاش کہ میں یہ سب نہ دیکھتا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گولیوں کی اواز سننے کے بعد ہال میں موجود بچے اندھا دھند یہاں سے باہر کی جانب لپکے جہاں دونوں دروازوں پر پہلے سے موجود شدت پسندوں نے انہیں جا لیا۔مرکزی ہال کے اندر ہر طرف ایک ایک انچ پر خون بکھرا ہوا تھا، بچوں اور خواتین اساتذہ کے جوتے خون میں لت پت تھے، جنہوں نے بھی سیٹوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی انہیں ایک ایک کر کے سر میں گولی مار دی گئی.

داخلی گزرگاہ اور ہال کے اندر 100 سے زائد لاشیں اور زخمی موجود تھے۔

ہر سیٹ خون میں لتھڑی ہوئی تھی۔ ایک سیٹ پر آٹھویں جماعت کے دو طلبا محمد عاصم اور محمد زاہد کی خون میں لت پت انگلش کی نوٹ بک پڑی ہوئی تھی۔آڈیٹوریم کے اسٹیج کے دائیں کونے پر جہاں سے انسٹرکٹر بچوں کو پڑھاتا ہے، وہاں پر موجود ایک خاتون استاد نے دہشت گردوں سے رحم اور بچوں کو چھوڑنے کی درخواست کی تاہم انہیں گولی مارنے کے بعد میں آگ لگا دی گئی اس وقت تک فوج کے خصوصی دستے پہنچ چکے تھے اور لڑائی شروع ہو چکی تھی جس کے باعث شدت پسندوں کو چند ہی میٹر کے فاصلے پر واقع انتظامی بلاک کی راہ لینی پڑی۔

سیکیورٹی آفیشل نے بتایا کہ دہشت گرد فوک کے خصوصی دستوں کی آمد سے قبل جونیئر سیکشن کی جانب پہنچ جاتے تو ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی۔عسکریت پسندوں نے انتظامی بلاک کے اندر سے فوجی جوانوں پر گولیاں برسائیں اور جب چار شدت پسندوں کو گھیر لیا گیا تو انہوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکوں کا اثر بہت بڑا اور تباہ کن تھا، چھت اور دیواروں پر انسانی اعضا، خون اور بال بیئرنگ چپکے ہوئے تھے۔

ایک خودکش بمبار نے خود کو اسکول کی ہیڈ مسٹریس طاہرہ قاضی کے اندر دھماکے سے اڑا لیا جس سے ان کا دفتر تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا، ‘ایک طرف بمبار کی ٹانگ بھی پڑی ہوئی تھی۔ہیڈ مسٹریس کے ساتھ ساتھ دو طلبا اور اسٹاف کے تین ارکان کو انتظامی بلاک میں شہید کیا گیا باقی دو بمباروں نے داخلی دروازے کے اطراف میں پوزیشن لیے ہوئے فوجی کمانڈوز کی جانب راہ لی ان میں سے پہلے ایک نے اور پھر دوسرے نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے پچھلی دیواروں پر بال بیئرنگ اور شارپ نیل جا ٹکرائے ‘ کچھ داخلی گزرگاہ کے عین سامنے درختوں سے جا لگے جس کے باعث وہاں پر موجود سات سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ان میں سے درخت کے پیچھے پوزیشن لیے ہوئے ایک فوجی کے چہرے پر یہ اجزا لگے ‘ اب اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

اس طرح یہ حملہ اختتام پذیر ہوا مگر اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا۔

متعلقہ عنوان :