سزائے موت پر عائد پابندی ہٹائے جانے کے بعد 7 ہزار 135 قیدیوں کو سزائے موت دینے کی راہ ہموار ہو جائیگی

جمعرات 18 دسمبر 2014 13:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 دسمبر 2014ء) حکومت کی جانب سے سزائے موت پر عائد پابندی ہٹائے جانے کے بعد 7 ہزار 135 قیدیوں کو سزائے موت دینے کی راہ ہموار ہو جائے گی جبکہ قانونی ماہرین نے کہاہے کہ دہشت گردوں اور فوجی عدالت سے سزا پانے والوں کے علاوہ دیگر پر یہ نیا حکمنامہ اثر انداز نہیں ہو گا۔بیرسٹر ظفر اللہ خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر یہ اعدادوشمار وفاقی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ میں جمع کرائے تھے۔

بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اپنی درخواست میں اپیل کی تھی کہ سزائے موت کے منتظر وہ قیدی جو 18 سال کی سزا کاٹ چکے ہیں انہیں رہا کر دیا جائے۔تاہم آزاد اداروں کے اعدادوشمار حکومتی اعدادوشمار سے مختلف ہیں جہاں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں 8 ہزار سے زائد افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔

(جاری ہے)

حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں 6 ہزار 424، سندھ میں 355، خیبر پختونخوا میں 183، بلوچستان میں 79 اور گلگت بلتستان میں 15 سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں سزائے موت کی دائر 4 ہزار 981 درخواستیں التوا کا شکار ہیں، وفاقی شرعی عدالت میں 15، سپریم کورٹ میں 893 جبکہ اسی طرح کی تین درخواستیں جنرل ہیڈکوارٹرز میں بھی التوا کا شکار ہیں اسی طرح صدر کے پاس بھی 463 سزائے موت کے مجرم قیدیوں کی رحم کی درخواستیں موجود ہیں جبکہ 69 کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔سندھ میں بھی صوبے کی اعلیٰ عدلیہ ہائی کورٹ میں 266 درخواستیں التوا کا شکار ہیں، وفاقی شرعی عدالت میں 5، سپریم کورٹ میں 48 جبکہ جی ایچ کیو میں 3 درخواستیں موجود ہیں۔

گورنر سندھ کے پاس بھی 27 قیدیوں کی رحم کی درخواستیں موجود ہیں جبکہ 6کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا میں 102 درخواستیں پشاور ہائی کورٹ میں توجہ کی منتظر ہیں، سپریم کورٹ میں 49، گورنر کو رحم کی اپیل کے ساتھ بھیجی گئی درخواستوں کی تعداد 29 ہے ‘تین مقدمات میں مجرموں کی سزا برقرار رکھی گئی ہے۔صوبہ بلوچستان میں اس سلسلے میں سب سے کم درخواستیں التوا شکار ہیں جہاں بلوچستان ہائی کورٹ میں 29، وفاقی شرعی عدالت میں ایک اور سپریم کورٹ 41 درخواستوں کے ساتھ ساتھ گورنر کو بھی رحم کی اپیل کے ساتھ 13 درخواستیں بھیجی گئی ہیں۔

حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ یں جاری ایک مقدمے میں شکیل رانا کاشف نے صدر سیکریٹریٹ کا ایک آفیشل خط عدالت میں پیش کیا جس میں انکشاف ہوا کہ صدر رحم کی 78 درخواستیں رد کر چکے ہیں۔سزائے موت پر پابندی پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دور میں لگائی گئی۔سابق صدر آصف علی زرداری نے غیر سرکاری طور پر سزائے موت پر پابندی عائد کر دی تھی۔دوسری جانب بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ دہشت گردی کے الزامات میں سزا پانے والے 170 قیدیوں کو اس کے باوجود بھی پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جا سکتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج امجد اقبال قریشی نے کہا کہ مہذب ملکوں نے پہلے ہی سزائے موت ختم کردی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ سزائے موت دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سزائے موت پر عملدرآمد سے پاکستان کے جی ایس پی اسٹیٹس کو خطرے میں پڑ جائے گا۔امجد اقبال نے کہا کہ اگر سزائے دنیا انتہائی ناگزیر ہے تو پاکستان کو پہلے اس معاملے پر عالمی برادری کو اعتماد میں لینا چاہیے۔