پشاور سکول میں حالیہ دہشت گردانہ حملہ‘ صدر باراک اوباما نے سلامتی کونسل کے اراکین کے اجلاس میں حملے کے بعد پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا

پاکستان کو حملے کے بعد معاونت کی پیشکش کی ہے‘ پینٹاگون

بدھ 17 دسمبر 2014 16:32

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 دسمبر 2014ء) امریکی صدر باراک اوباما نے قومی سلامتی کونسل کے اراکین کیساتھ حالیہ وحشیانہ دہشت گرد حملے کے تناظر میں پاکستان کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر باراک اوباما نے قومی سلامتی کونسل کے اراکین کیساتھ پشاور سکول پر دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں امریکی سکیورٹی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

اجلاس میں نائب صدر جو بائیڈن قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس اور ایف بی آئی ، سی آئی اے سمیت مختلف خفیہ اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں صدر باراک اوباما کو ملک کی سکیورٹی صورتحال اور بیرون ملک سکیورٹی مانیٹرنگ کے امریکی پروگرام بارے آگاہ کیا گیا۔

(جاری ہے)

دریں اثناء امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کیربننے صحافیوں کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کو حالیہ وحشیانہ حملے کے بعد معاونت کی پیشکش کردی ہے تاہم اسلام آباد نے اس سلسلے میں باضابطہ طور پر ہمیں معاونت فراہم کرنے کی درخواست نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان گذشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کے اس خطرے کا سامنا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان پر کئی بار اس حقیقت بارے واضح کرچکے ہیں کہ دہشت گردی وہ خطرہ ہے جس کا دونوں ممالک کو مشترکہ طور پر سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں سے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر سکیورٹی کو حقیقی خدشات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے گذشتہ کئی سال سے فوج کی کوششیں ناقابل ستائش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کیخلاف لڑائی کے دوران پاک فوج کو بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا تاہم اس کے باوجود وہ ان دہشت گردوں کیخلاف ہمت اور حوصلے کیساتھ نمٹ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور سکول میں حملہ اور اس کے بعد طالبان کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلینا اس بات کا عکاس ہے کہ وزیرستان آپریشن کے باعث وہ پاک فوج کے دباؤ میں ہیں۔