پشاور کے سکول میں حملہ ،خاتون ٹیچر اور سیکیورٹی اہلکار سمیت 126بچے شہید،اساتذہ سمیت کئی زخمی، خیبرپختونخواہ حکومت کا تین روزہ سوگ کا اعلان ، سیکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں میں فائرنگ کا تبادلہ

منگل 16 دسمبر 2014 15:36

پشاور کے سکول میں حملہ ،خاتون ٹیچر اور سیکیورٹی اہلکار سمیت 126بچے شہید،اساتذہ ..

پشاور/کراچی/لندن/لاہور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 16 دسمبر 2014ء) صوبائی دارالحکومت پشاور کے کینٹ ایریا میں وارسک روڈ پر واقع پبلک سکول میں دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں خاتون ‘ مرد ٹیچر ‘ اور بچوں سمیت 126افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے ‘ شہید بچوں کی عمریں 9 سے 16 سال کے درمیان تھیں ‘سکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے کئی بچوں کومحفوظ مقام پر منتقل کر دیا ‘ جوابی کارروائی میں تین دہشتگرد مارے گئے ‘زخمیوں میں بعض کی حالت نازک ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کاخدشہ ہے ‘ واقعہ کے بعد ہسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی جبکہ صدر ممنون حسین ‘ وزیر اعظم نواز شریف ‘ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگرد بزدلانہ کارروائی کررہے ہیں ‘معصوم بچوں کی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ۔

(جاری ہے)

منگل کو پشاور میں الیکشن کمیشن کے صوبائی صدر دفتر کے قریب ورسک روڈ پر واقع پاک فوج کی رہائشی کالونی سے متصل آرمی پبلک اسکول میں نصابی سرگرمیاں جاری تھیں کہ سیکیورٹی فورسز کی وردی میں ملبوس دہشت گرد سکول کی عمارت کے عقبی حصے سے دیوار پھلانگ کر گھس کر اندر گھس آئے اور فائرنگ شروع کردی۔

فائرنگ کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز نے سکول اور علاقے کو گھیرے میں لے کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیاتاہم عینی شاہدین کے مطابق سکول پر 6سے زائد مسلح افرادنے پہلے ایک گاڑی کو آگ لگائی اور سکول میں داخل ہوئے،بچوں پر براہ راست گولیاں چلائیں اورکچھ بچوں کو یرغمال بنالیا ‘ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فوری طور پر کارروائی شروع کی گئی کئی اور فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹے جاری رہا ،خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے ترجمان نجیع اللہ خٹک نے بی بی سی کو بتایا شہداء کی تعداد بڑھ کر 126 ہو چکی ہے، 122 افراد زخمی ہیں۔

تاہم وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے 84سے زائد بچوں کی شہادتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ واقعے میں شہید ہونے والے 60 افراد کی لاشیں سی ایم ایچ اور 24 کی لاشیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں موجود ہیں‘ دونوں ہسپتالوں میں 80 سے زیادہ زخمی بھی لائے گئے ذرائع کے مطابق شہید ہونے والے بچوں کی عمر 9 سے 16 سال کے درمیان بتائی جاتی ہے ایک خاتون ٹیچر اور ایک مرد ٹیچر شہید ہونے والوں میں شامل ہیں۔

زخمیوں کو فوری طورپر لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور سی ایم ایچ منتقل کیا گیا جہاں زخمیوں کو طبی امداددی گئی ہسپتال ذرائع کے مطابق زخمیوں میں بعض کی حالت نازک ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کاخدشہ ہے.

ذرائع کے مطابق ہسپتال میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی اور لوگوں سے خون کے عطیات کی اپیل کی گئی خدوسری جانب ہسپتال منتقل کیے گئے زخمیوں اور شہداء کے اہلخانہ کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیاادھر سکول کے بس ڈرائیور جمشید خان نے کہا کہ ہم سکول کے باہر کھڑے تھے جب اچانک فائرنگ شروع ہو گئی ہر طرف افراتفری تھی اور بچے اور اساتذہ کی چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔

سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک بچے کے والد نے بتایا انھوں نے اپنے بیٹے سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جہاں انھیں بتایا گیا کہ پانچ سے چھ مسلح افراد سکول میں داخل ہوئے ہیں اور فائرنگ کی ۔ایک عینی شاہد مدثر نے بتایا کہ سکول کے بڑے ہال آڈیٹوریم میں نویں اور دسویں جماعت کے طلبا کی ایک تقریب ہو رہی تھی ‘ کچھ کلاسز میں بچوں کے امتحانات ہو رہے تھے اس لیے سکول میں بچوں کی تعداد معمول سے کم تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی شوکت یوسف زئی کے مطابق دہشت گرد سیکورٹی فورسزکی وردیاں پہن کر آئے تھے شوکت یوسف زئی نے کہا کہ یہ حملہ آپریشن ضرب عضب کا رد عمل ہو سکتا ہے۔خیبر پختونخوا کے ترجمان مشتاق غنی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کی معلومات کے مطابق اس حملے میں بچے اور سکول کے سٹاف کے کئی افراد زخمی ہوئے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہلاکتوں کے بارے میں ابھی وہ کچھ نہیں سکتے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق زیادہ تر سکول کے بچوں اور سٹاف کو سکول سے نکال لیا گیا سکیورٹی ذرائع کے مطابق آپریشن کے دور ان تین حملہ آور بھی مارے گئے دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے سکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے میڈیا کو بھیجے ایک بیان میں محمد عمرخرسانی نے کہاکہ ہمارے چھ حملہ آور سکول میں داخل ہوئے ہیں یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے جواب میں ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ضربِ عضب اور خیبر ون میں جاری آپریشنز میں 500 طالبان مارے گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے لوگوں کو مبینہ تشدد کے ذریعے مارا گیا جس کے باعث ہم انتہائی اقدام اٹھایاادھر صدر ممنون حسین ‘ وزیر اعظم نواز شریف ‘ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگرد بزدلانہ کارروائی کررہے ہیں ‘معصوم بچوں کی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ایک بیان میں وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے انہوں نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہا ر کرتے ہوئے زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کر نے کی ہدایت کی وزیر اعظم نواز شریف نے واقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ دہشتگردی کی اس بہیمانہ واردات کے ماسٹر مائنڈ کو کسی صورت نہ چھوڑا جائے ادھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو ٹیلی فون پر احکامات د دیئے کہ وہ زخمیوں کو فوری طبی سہولیات فراہم کر نے کی ہدایت کریں عمران خان نے پرویز خٹک کو تمام صورتحال پر نظر رکھنے کی بھی ہدایت کی۔

چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری ،ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر علی بلوچ ،سینٹ میں قائدایوان راجہ محمد ظفر الحق اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن ‘سپیکر قومی اسمبلی سر دار ایاز صادق ‘ صدر آزاد کشمیر سردار محمد یعقوب ‘ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبد المجید ‘ وزرائے اعلیٰ میاں شہباز شریف ‘ قائم علی شاہ ‘ ڈاکٹر عبد المالک ‘ پرویز خٹک ‘ گورنر پنجاب چوہدری غلام سرور ‘ گور نر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ‘ گور نر خیبر پختون خوا سردار مہتاب خان عباسی ‘وفاقی وزراء پرویز رشید ‘ خواجہ سعد رفیق ‘ چوہدری نثار علی خان ‘ خواجہ آصف ‘ شاہد خاقان عباسی ‘ انجینئر بلیغ الرحمن ‘ سائرہ افضل تارڑ ‘ عابد شیر علی ‘اسحاق ڈار ‘ وزیر اعظم کے پولیٹکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی ‘ ترجمان وزیر اعظم مصدق ملک ‘ مسلم لیگ (ن)کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز شریف ‘ پیپلز پارٹی کے سرپرست بلاول بھٹو زر داری ‘ سابق صدر آصف علی زر داری ‘ آصف علی زر داری کی صاحبزادیاں آصفہ بھٹو زر داری ‘ بختاور بھٹو زر داری ‘ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ‘ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ‘ سابق صدر آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف ‘ مسلم لیگ (ق)کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ‘ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ‘ وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی ‘ ترجمان شیریں مزاری ‘ پیپلز پارٹی کے رہنما شیریں رحمن ‘ سینیٹر رضا ربانی ‘ اپوزیشن لیڈر سید خورشیدشاہ ‘ ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی ‘ ڈاکٹر فاروق ستار ‘ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل ‘ غلام احمد بلور ‘ سینیٹر زاہد خان ‘ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق ‘ جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ‘ عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری ‘ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجد نقو ی ‘اہلسنت و الجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی ‘ اورنگزیب فاروقی سمیت متعدد سیاسی ومذہبی رہنماؤں نے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ معصوم بچوں کا کیا قصور ہے دہشتگردوں کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ۔