ایران میں ’سفید شادیوں‘ کا بڑھتا چلن

بدھ 10 دسمبر 2014 00:09

ایران میں ’سفید شادیوں‘ کا بڑھتا چلن

تہران(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10دسمبر۔2014ء) ایران میں سخت اسلامی قوانین کے نفاذ کے باوجود نوجوان جوڑوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شادی سے پہلے ایک ساتھ رہنے کو ترجیح دے رہی ہے۔یہ رواج اتنا عام ہوتا جا رہا ہے کہ ملک کے روحانی پیشوا کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس عمل پرگہری ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔بی بی سی کے مطابق تہران کی رہنے والی سارہ بھی ایک ایسی ہی ایرانی خاتون ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کسی کو صحیح طرح جاننے کے لیے ان کے ساتھ صرف گھومنا پھرنا کافی نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ایران میں ’وائٹ میرج‘ کے نام سے جانا جانے والا یہ رشتہ کچھ عرصہ قبل تک ناقابل تصور تھا۔ایک ایسا ملک جہاں کے سخت اسلامی قوانین مخالف جنس سے ہاتھ ملانے کی بھی اجازت نہیں دیتے وہاں شادی سے پہلے ساتھ رہنے کا جرم کافی مہنگا پڑسکتا ہے مگر اس خطرے کے باوجود بڑی تعداد میں غیر شادی شدہ نوجوان جوڑے ساتھ رہنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اگرچہ اس بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں پر یہ ’سفید شادیاں‘ اتنی عام ہو گئ ہیں کہ حال ہی میں خواتین کے مقبول ڈائجسٹ زنان نے اس موضوع پر ایک پورا شمارہ شائع کیا ہے اور اب تو ایران کے رہبرِ اعلی آیت اللہ خامنہ ای بھی اس بحث میں شامل ہوگئے ہیں۔نومبر کے آخر میں ان کے دفتر کے سربراہ محمد محمدی گل پائیگانی نے ایک انتہائی سخت بیان جاری کیا جس میں ساتھ رہنے والے غیر شادی شدہ جوڑوں کے خلاف سخت کاروائی کا حکم دیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ شادی کے بغیر مرد اور عورت کا ساتھ رہنا انتہائی شرم کی بات ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو جائز نسل کا صفایا ہو جاۓ گا اور صرف ناجائز نسل رہ جائےگی۔لیکن نوجوان ایرانیوں کا اپنا نکتہ نظر ہے۔تہران میں دو سال سے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رہنے والے نوجوان علی کا کہنا ہے کہ ’شادی کرنا بہت مہنگا ہے اور طلاق لینا اس سے بھی زیادہ، میں شادی کر کے پابند کیوں ہوں۔

‘شہروں میں رہنے والے نوجوان ایرانیوں کے اس طرح کے خیالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کی نسل میں مقبول اسلامی اقدار سے دور ہو گئے ہیں۔سویڈن میں مقیم ایرانی ماہرِ سماجیات مہرداد داروشپور کا کہنا ہے کہ اگرچہ شادی کے بغیر ساتھ رہنا مذہبی طبقے کو قابلِ قبول نہیں مگر باقی دنیا کی طرح اب ایران میں بھی جوڑے شادی کے بندھن میں بندھے بغیر ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایران کے ریاستی رفاہی ادارے کے سربراہ فرہاد اگتار کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک شادی ناکام ہو جاتی ہے اور دارالحکومت تہران میں طلاق کی شرح سب سے ذیادہ ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ جوڑوں کا شادی میں جلدی نہ کرنا اور ان کے اہل خانہ کا ان کے ساتھ اتفاق کرنے کی وجہ یہی بڑھتی ہوئی شرح طلاق ہے۔ایران میں شادی ایک شاہانہ اور مہنگا معاملہ ہے جس کے اخراجات دولہے کا خاندان برداشت کرتا ہے اور اگر طلاق ہو جائے تو دولہے کو مہر کی رقم بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔

اس لیے اگر شادی ناکام ہو تو مردوں پر اس کا شدید معاشی دباؤ پڑتا ہے اور وہ اکثر قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ایرانی خواتین کو بھی شادی کی ناکامی پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسلامی قوانین کے تحت خواتین کے لیے طلاق لینا آسان نہیں ہے اور اولاد کی تحویل کا قانون بھی والد کے حق میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایرانی معاشرے میں مطلقہ عورتوں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

مرجان کا جو اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ اراک کے شہر میں رہتی تھی، کہنا ہے کہ اسے چار مرتبہ اپنا گھر تبدیل کرنا پڑا کیونکہ جونہی مالکِ مکان کو پتہ چلتا کہ وہ شادی شدہ نہیں ہیں تو وہ ان کو مکان فوراً خالی کرنے کا کہتے۔

ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ دلواتے ہوئے، قانون دان اور عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن مہرانگیز کار کا کہنا ہے کہ کیونکہ سفید شادی قانونی طور پر ناجائز ہے اس لیے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے تو جوڑوں کے لیے کوئی قانونی مدد دستیاب نہیں ہے۔

اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی بھی ہو تو وہ پولیس کے پاس نہیں جا سکتی کیونکہ اسے اور اس کے بوائے فرینڈ کو زنا کے الزام میں گرفتار کر لیا جائے گا۔اس سال موسمِ گرما میں تہران کے گورنر کے دفتر میں تعینات سماجی اور ثقافتی امور کے سربراہ سیاواش شہریار نے اعلان کیا تھا کہ سفید شادیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔مگر ماہرِ سماجیات مہرداد داروشپور کا ماننا ہے کہ قانون سازی کے ذریعے اس بڑھتے ہویے رواج کو نہیں دبایا جا سکتا۔ان کے مطابق حکومت اس کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کے باجود ناکام ہوگی کیونکہ نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے اور جدت کو روکا نہیں جا سکتا۔

متعلقہ عنوان :