صوبوں کو مکمل خود مختاری دیئے بغیر مضبوط پاکستان ممکن نہیں ،ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی،

موجودہ آئین سے پنجاب کے سوا 3 صوبے مطمئن نہیں ، آئین میں دیئے اختیارات پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ،قائمقام صوبائی صدر اے این پی

پیر 8 دسمبر 2014 23:32

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 08 دسمبر 2014ء) بلوچستان کے مذہبی ، قوم پرست اور وفاق پرست سیاسی پارٹیوں نے کہا ہے کہ صوبوں کو مکمل خود مختاری دیئے بغیر مضبوط پاکستان کا ممکن نہیں موجودہ آئین سے پنجاب کے سوا 3 صوبے مطمئن نہیں آئین میں دیئے گئے اختیارات پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ، آئین کے ہوتے ہوئے تحفظ پاکستان آرڈیننس کی ضرورت کیوں پیش آئی ان خیالات کا اظہار کوئٹہ پریس کلب کے زیر اہتمام ہونے والے اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں صوبائی خودمختاری اور بلوچستان پر مرتب ہونے والے اثرات سے متعلق سیمینار سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائمقام صدر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ، نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء طاہر بزنجو ، پشتونخوا میپ کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ ، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر عبدالمتین اخوندزادہ ، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی ، جمعیت علماء اسلام کے رکن قومی اسمبلی مولوی امیر زمان ، پیپلزپارٹی کے سید اقبال شاہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے چیئرمین واحد بلوچ ، جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے مولانا عبدالقادر لونی ، نیشنل پارٹی کے اسحاق بلوچ ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے آغا رضا وصی ، میڈیا ایکشن کمیٹی کے چیئرمین شہزادہ ذوالفقار ، کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمان اور عبدالخالق رند نے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائمقام صدر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہاکہ 73 کے آئین کے بنا نے میں نیشنل پارٹی نے اہم رول ادا کیا بہت سے لوگ ناراض تھے کچھ نے دستخط نہیں کئے لیکن اس کے باوجود مصلحتوں کو سامنے رکھ کر ملک کو 73 کا آئین دیا گیا لیکن تیسرے ماہ میں ہی آئین میں ترامیم شروع کردی گئیں جس کی وجہ سے آئین کو نقصان پہنچا انہوں نے کہا کہ بعض لوگ ناراض بلوچوں کو قومی دائرے میں لانے کی باتیں کررہے ہیں ان لوگوں کو رویوں اور مایوسیوں نے پہاڑوں پر چڑھایا ہے محرومیوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے ان حالات میں لوگوں کو پہاڑوں سے کس طرح نیچے لایا جاسکتا ہے کنکرنٹ لسٹ جو 10 سال کے بعد ختم ہو کر اختیارات صوبوں کو منتقل ہونا تھا مارشل لاہوں کے باعث دس سال 38 سالوں میں تبدیل ہوگئے اب اٹھارویں ترمیم لائی گئی جس کے تحت صوبوں کو 25 محکمے دی جانی ہے اس وقت بھی اہم محکمے وفاق کے لسٹ میں ڈال دی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کنکرنٹ لسٹ صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد ہر صوبے کے وسائل پر وہاں کے عوام کا اختیار ہونا چاہیے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسی ترتیب منایا جائے کہ کسی بھی مسئلے پر صوبوں کو ویٹو کرنے کا اختیار دیا جائے اگر کوئی کام صوبے اور ان کے عوام کی مرضی کے بغیر ہوتا ہے تو ہر صوبے کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اس کام کے خلاف ویٹو کرے ۔

جب تک صوبے مطمئن نہیں ہوں گے اس وقت تک وفاق مضبوط نہیں ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ عجیب بات یہ ہے کہ جب مغربی اور مشرقی پاکستان ایک تھی تو ہمارے حکمران رقبے کے لحاظ سے وسائل مانگتے تھے جیسے ہی بنگلہ دیش الگ ہوا تو ہماری قیادت نے آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم شروع کردی ۔ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے میڈیا کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر شیخ رشید جیسے لوگوں کو بلوچستان کے مسائل پر بات کرنے کے لئے بلاتے ہیں اس صوبے کے صحافی اور نمائندے چینلوں پر دور دور تک نظر نہیں آتے ، شیخ رشید اور ان جیسے لوگ بلوچستان کے مسائل پر کیا بات کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم آج بھی بلوچستان کے عوام کے معیار کے مطابق نہیں ۔انہوں نے کہا کہ جب تک پنجاب بی این پی کو مطمئن نہیں کرسکتی وہ پہاڑوں پر جانے والوں کو کیسے مطمئن کریں گے ۔ سیاسی رہنماؤں پر حملے ہورہے ہیں ہم تو کب سے مارے جارہے ہیں اٹھارویں ترمیم گوکہ خوشگوار تبدیلی کا آغاز ہے لیکن مقتدر قوتیں ان کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔

نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو نے کہا کہ ملک کی سیاست میں دو رجحانات ہیں ایک مرکزیت جبکہ دوسرا عدم مرکزیت ہے نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ عدم مرکزیت کے علمبردار تھے پاکستان میں قومیتوں کا سوال کسی ایک ذہن کی تخلیق نہیں یہ سوال پاکستان بننے کے ساتھ وجود میں آیا تھا ، بلوچ پشتون ، سندھی پاکستان بننے سے پہلے بھی مسلمان تھے اور اب بھی ہیں ان قوموں کا ہزاروں سال تاریخ ، زبان اور کلچر ہے پاکستان بننے سے قبل بھی ہماری شناخت تھی اور ہم اپنے تاریخی سرزمین پر آباد تھے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے اس بات کو ہر ایک نے تسلیم کرنا ہوگا اور یہاں آباد قومیں وفاق کی اکائیاں ہیں جس کو مطمئن کرنا نہات ضروری ہے ۔ اقتدار اور دولت کی منصفانہ تقسیم سے ہی قومیں اور صوبے مطمئن ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ شروع ہی سے ظلم وزیادتی ہوئی ہے مرکز کا رویہ منفی رہا ہے جس کے نتیجے میں علیحدگی پسند رجحانات کو فروغ حاصل ہوا ۔

نامطمئن صوبے مضبوط پاکستان کی ضرورت ہے جبکہ مضبوط مرکز بہتر پاکستان کو وجود میں نہیں لاسکتا ۔ مرکز کی مضبوطی کی کوششوں کے نتیجے میں ملک کو تباہ کن حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ پاکستان کو حقیقی وفاقی ریاست بنانے کے لئے نہ صرف 73 کے آئین پر عمل درآمد بلکہ قوموں کو مطمئن کرنے کے لئے اس میں مزید ترمیم کی ضرورت ہے ۔ اٹھارویں ترمیم ایک خوش آئند قدم ہے لیکن بہت سی چیزیں ابھی باقی ہیں ۔

سینٹ کو طاقتور بنانا ہوگا مالی اختیارات اور قانون سازی سینٹ کو دینا ہوگی مرکز میں وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے کوٹے پر عمل درآمد یقینی ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ حکمران ماضی سے سبق حاصل نہیں کررہے اور مزید غلطی پہ غلطی کرنے جارہے ہیں خوشحال اور طاقتور پاکستان کو طاقتور صوبوں کی شکل میں نظر آنا چاہیے طاقتور صوبے ہی مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم اسٹیبلشمنٹ کو ہضم نہیں ہورہی اور اسے سبوتاژ کرنے کی زبردست کوششیں کی ج ارہی ہیں ۔ انہوں نے تنبیہ کیا کہ اگر اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو نیشنل پارٹی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے گی جس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے ۔ اے این پی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی نے کہا کہ 73 کے آئین اور اٹھارویں ترمیم کے لئے قوم پرستوں کی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہمارے اکابرین نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی اور شہادتیں دیں ۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جو ڈرامہ رچایا جارہا ہے یہ دراصل اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی سازش کی جارہی ہے اگر یہ سازش کامیاب ہوگئی تو پھر ملک میں افرا تفری ہوگا اور ہر قوم کو اپنا آئین بنانا پڑے گا ۔ تمام سیاسی جماعتوں نے موجودہ حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں موجودہ حکومت کو بھی عوام کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے آئین کے ہوتے ہوئے تحفظ آرڈیننس لانا سوالیہ نشان ہے ۔

جماعت اسلامی کے صوبائی امیر عبدالمتین اخوندزادہ نے کہا کہ 73 کے آئین پر تمام جماعتوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اٹھارویں ترمیم کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اس کو روکنا ہوگا پاکستانی کلچر جمہوری نہیں رہا اس وجہ سے ہر بار آمریت نافذ ہوتی رہی ۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس اٹھارویں ترمیم کے خلاف عمل ہیجماعت اسلامی کے صوبائی امیر عبدالمتین اخوندزادہ نے کہا کہ 73 کے آئین پر تمام جماعتوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اٹھارویں ترمیم کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اس کو روکنا ہوگا پاکستانی کلچر جمہوری نہیں رہا اس وجہ سے ہر بار آمریت نافذ ہوتی رہی ۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس اٹھارویں ترمیم کے خلاف عمل ہے۔ اس موقع پر دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا ۔