یورپی پارلیمان کا پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک عیسائی عورت آسیہ بی بی کے کیس پر تشویش کا اظہار

یورپی یونین کا پاکستان سے توہینِ رسالت قانون کی تنسیخ کا مطالبہ، توہین رسالت کے قوانین کو احمدیوں اور عیسائیوں سمیت اقلیتی گروپوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے،حکومت پاکستان توہین رسالت سے متعلق قوانین اور ان کے اطلاق کے موجودہ طریق کار کا مکمل باریک بینی سے جائزہ لے کر انھیں منسوخ کرے،قرارداد

جمعہ 28 نومبر 2014 23:32

پیرس(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28نومبر 2014ء) یورپی پارلیمان نے پاکستان سے توہینِ رسالت قوانین پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے اورکہا ہے کہ ان قوانین کو منسوخ کیا جائے کیونکہ یہ عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یوپی پارلیمان نے پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک عیسائی عورت آسیہ بی بی کے کیس پر خاص طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس عورت کو چار سال قبل ایک مسلم عورت کے ساتھ پانی کے ایک کٹورے سے پیدا ہونے والے تنازعے پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز کلمات کہنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور عدالت نے اس کو سزائے موت سنائی تھی۔عدالت عالیہ لاہور نے گذشتہ ماہ اس کی سزائے موت برقرار رکھی تھی اور اس کی جانب سے ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کو مسترد کردیا تھا۔

(جاری ہے)

اس نے گذشتہ سوموار کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اپنی سزا کے خلاف حتمی اپیل دائر کردی ہے۔یورپی پارلیمان کے ارکان نے فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں منعقدہ اجلاس میں ایک غیر پابند قرار داد منظور کی ہے۔اس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ توہین رسالت کے قوانین کو احمدیوں اور عیسائیوں سمیت اقلیتی گروپوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

قرارداد میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ توہین رسالت سے متعلق قوانین اور ان کے اطلاق کے موجودہ طریق کار کا مکمل باریک بینی سے جائزہ لے کر انھیں منسوخ کرے۔اس میں حکومتِ پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ توہین رسالت یا ملحد ہونے کے جرم سمیت سزائے موت کو یکسر ختم کردے۔درایں اثناء یورپی پارلیمان کے قریباً پچاس ارکان نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا مغرینی کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان پر زوردیا گیا ہے کہ وہ پاکستان سے آسیہ بی بی کے معاملے میں رحم کا معاملہ کرنے کے لیے کہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں 2008ء کے بعد سے کسی بھی جرم میں سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے اور نومبر2012ء میں صرف ایک فوجی کو کورٹ مارشل کے بعد پھانسی دی گئی تھی۔واضح رہے کہ پاکستان میں توہین رسالت ایک بہت حساس معاملہ ہے اور ملک کی مذہبی سیاسی جماعتیں اور دینی تنظیمیں یہ سزا ختم کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ ماضی میں ایسی کسی بھی کوشش کی سخت مزاحمت کرچکی ہیں۔ان کا موقف ہے کہ قانون کو ختم کرنے کے بجائے اس کے نفاذ کے طریق کار کو بہتر بنایا جائے۔