پا کستا ن تحر یک انصاف کو 30 نومبر کے جلسے کی اجازت لینے کیلئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے رجوع کرنے کے احکامات جاری،

جلسے کی اجازت دینا عدلیہ کا کام ہے نہ ہی ضلعی انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرسکتے ہیں ‘ جسٹس اطہر من اللہ

جمعرات 27 نومبر 2014 22:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 27نومبر 2014ء) اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین اور پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر کی طرف پی ٹی آئی کے قائدین اور ورکروں کی گرفتاریوں‘ پولیس کی طرف سے ہراساں کرنے اور اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی دفعہ 144 کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے درخواست گزار کو 30 نومبر کے جلسے کے حوالے سے انتظامات کو حتمی شکل دینے اور سکیورٹی کیلئے سخت انتظامات کرنے‘ جلسہ کی اجازت لینے کیلئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے رجوع کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔

جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین اور رکن قومی اسمبلی اسد عمر کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

(جاری ہے)

جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سنگل بنچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل فرخ ڈال جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان فیصل رفیق عدالت میں پیش ہوئے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار جہانگیر ترین اور اسد عمر کی جانب سے عدالت میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 کے نفاذ کو چیلنج کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی 30 نومبر کو دھاندلی کیخلاف ایک بہت بڑا جلسہ کررہی ہے جبکہ پولیس نے پی ٹی آئی کی قیادت سینئر راہنماؤں اور ورکروں کو ہراساں کرنا شروع کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں اور انہیں غیرقانونی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواستوں میں وفاق‘ وزارت داخلہ‘ وزارت قانون‘ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور چیف کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا گیا ہے۔

ابتدائی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جلسے کی اجازت دینا عدلیہ کا کام نہیں ہے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے۔ ملک میں پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں اور امن و امان کی صورتحال بھی ٹھیک نہیں ہے۔ نہ صرف پی ٹی آئی کے ورکروں اور دیگر لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ بلکہ عام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری بھی عدالت پر عائد ہوتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات رونماء ہورہے ہیں اور امن و امان کی صورتحال بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اسلام آباد میں لاء اینڈ آرڈر کو کنٹرول کرنا ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت لینے کیلئے ڈی سی اسلام آباد سے رابطہ کرنا چاہئے۔ پی ٹی آئی کی قیادت ضلعی انتظامیہ کیساتھ ملاقات کرکے افہام و تفہیم کیساتھ معاملات کو حل کرسکتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جلسے کی اجازت عدالت نہیں دے سکتی۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کے ورکروں کو غیرقانونی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ غیرقانونی طور پر کوئی کام نہیں کرسکتی۔ اگر آپ کے خدشات وہاں دور نہیں ہوتے تو آپ دوبارہ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے جلسے کو روکنے کیلئے آبپارہ کے تاجروں کی جانب سے ایک آئینی درخواست دائر کی گئی تھی۔ عدالت نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے درخواست گزار کو ڈی سی اسلام آباد سے رابطہ کرنے کے احکامات جاری کئے تھے کیونکہ متعلقہ فورم وہی ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل کو ڈی سی اسلام آباد سے رابطہ کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ آپ 27 نومبر کو ڈی سی اسلام آباد سے تین بجے ملاقات کریں اور جلسے کے حوالے سے اپنی شرائط و ضوابط طے کرلیں۔ مذکورہ احکامات کے بعد عدالت نے درخواستوں کی سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔۔

متعلقہ عنوان :