حکومت اعلیٰ تعلیمی شعبہ کے مزید استحکام کیلئے تعاون جاری رکھے گی،علمی معیشت کو استوار کرنے کیلئے فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے گا،بین الاقوامی طریقہ کار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی شعبہ کی ترقی کرنے اورا پنی یونیورسٹیوں کو سماجی ومعاشی ترقی کا حقیقی مرکز بنانے کیلئے پالیسیوں کا تسلسل نا گزیر ہے ، دنیا میں کوئی ترقی یافتہ ملک واضح نشان منزل کے بغیر نہیں کر سکتا ، حکومت نے اپنے وژن2025 میں واضح ہدف رکھے ہیں، تعلیم و تحقیق کو اولین ترجیح دی گئی، یونیورسٹیوں کو تصورات کی تخلیق گاہیں ہونا چاہئے،ہمارے معاشی و سماجی مسائل کا حل پیش کریں،

وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ریفارمز احسن اقبال کی پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو یقین دہانی

جمعرات 27 نومبر 2014 21:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 27نومبر 2014ء ) وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ریفارمز احسن اقبال نے تمام پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو یقین دلایا کہ حکومت اعلیٰ تعلیمی شعبہ کے مزید استحکام کیلئے تعاون جاری رکھے گی،علمی معیشت کو استوار کرنے کیلئے فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے گا۔ملک بھر سے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہان اٹھارویں ترمیم کے تناظرمیں اعلیٰ تعلیمی شعبہ کے کردار پر روشنی ڈالنے کے علاوہ معیاری تعلیم و تحقیق پر مختلف مسائل تبادلہ خیال کیا۔

اجلاس میں ایچ ای سی سے این او سی حاصل کئے بغیر یونیورسٹیوں کے ذیلی کیمپسز میں روز افزوں اضافہ اور مطلوبہ لوازمات مکمل کئے بغیر کالجوں کے الحاق پر تبادلہ خیال کیا۔وزیر نے زور دیا کہ بین الاقوامی طریقہ کار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی شعبہ کی ترقی کرنے اورا پنی یونیورسٹیوں کو سماجی ومعاشی ترقی کا حقیقی مرکز بنانے کیلئے پالیسیوں کا تسلسل نا گزیر ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے اس امر پربھی زور دیا کہ دنیا میں کوئی بھی ترقی یافتہ ملک واضح نشان منزل کے بغیر نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اپنے وژن2025 میں واضح ہدف رکھے ہیں اور تعلیم و تحقیق کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔وزیر نے کہا کہ یونیورسٹیوں کو تصورات کی تخلیق گاہیں ہونا چاہئے اور ہمارے معاشی و سماجی مسائل کا حل بھی پیش کریں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا علمی سطح کو پیداواری سطح کے مساوی لانا ہو گا اگر ہمیں پاکستان کی معاشی ترقی کو یقینی بنانا ہے علاوہ ازیں اس مقصد کے حصول کیلئے ہماری یونیورسٹیوں کوبنیادی کرادار ادا کرنا ہوگا۔

اس سے قبل معیاری مسائل پر بحث کرنے کے دوران پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد چیئرمین ایچ ای سی نے کہا کہ ایچ ای سی اور یونیورسٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کی بہتری کیلئے پیش پیش ہونے کے باوجودبہتری کی رفتار سست ہے۔انہوں نے کہا کہ معیار ایک بڑا مسئلہ بن رہا ہے۔خواہ یہ اعلیٰ تعلیم کے معیاری طلبا ہوں، فیکلٹی ممبران، تحقیق، گورننس اور دیگر پہلو ۔ اس سلسلے میں کسی بھی صورت معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

حتیٰ کہ چند صورتوں میں چند اداروں کی طرف سے اقدامات اُٹھانے کیلئے غلط تاثر ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیمی شعبہ متاثر بھی ہوا ہے۔چیئر مین نے فیکلٹی پوزیشنز کی اَپ گریڈیشن ، فیکلٹی تقرری ، معیار کی بہتری بالخصوص Tenureٹریک سسٹم سے متعلق مسائل کو اُجاگر کیا ۔Tenureٹریک سسٹم اصل میں اس لئے بنایا گیا جب بہت سی یونیورسٹیوں میں فریش پی ایچ ڈی کو ٹی ٹی ایس کی بنیاد پر بھرتی کیلئے اپنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ ایچ ای سی نے این او سی حاصل کئے بغیر کیمپسز کھولنے کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں کو براہ راست یا فرنچائزڈ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تصور سے نئے کیمپسز کھولنے پربار باربات چیت کی گئی جس میں یونیورسٹیوں کی جانب سے پذیرائی نہیں ملی۔انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ ڈگری دینے والا ادارہ قائم کرنے یا ایچ ای سی کے منظور شدہ کیمپسز قائم کرنے میں کم از کم معیار پر پورا نہ اترنے والی یونیورسٹیوں پر شدید تحفظات ظاہر کئے گئے۔

دو روزہ وائس چانسلرز کمیٹی اجلاس میں مفصل تبادلہ خیال کے بعد متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ایچ ای سی آرڈیننس کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے اور اعلیٰ تعلیم کو موجودہ پالیسیوں کے مطابق معیاری، ہمہ گیر اور قابل فہم بنانے کے لئے ایچ ای سی اسلام آباد کو بطور مرکزی کنٹرولنگ اتھار ٹی کام کرنے دیا جائے۔قرارداد میں مزید سفارش کی گئی کہ بالخصوص چھوٹے صوبوں کی یونیورسٹیاں انتہائی کٹھن حالات سے دوچارہیں اور انہیں مستحکم ہونے کیلئے مزید دس سے پندرہ سال لگیں گے۔لہذااعلیٰ تعلیم کے سربراہان میں کوئی تبدیلی اس کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔