اگر پارلیمنٹ میں سزائے موت کے خاتمے کے حوالے سے بل لایا گیا تو اس کی مخالفت کرینگے‘سینیٹر پروفیسر ساجد میر،

جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کو فی الفور پھانسی پر لٹکایا جائے، حدود اللہ میں تبدیلی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہو گی، رازق صرف اللہ ہے ہمیں یورپی یونین سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ،حدود وتعزیرات میں کوئی تبدیلی برداشت نہیں کی جائیگی‘ سربراہ مرکزی جمعیت اہل حدیث

بدھ 26 نومبر 2014 19:55

لاہور (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 26نومبر 2014ء) مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں سزائے موت کے خاتمے کے حوالے سے حکومت کوئی بل لے کر آئی تو ہم اس کی مخالفت کریں گے ،رازق صرف اللہ ہے ہمیں یورپی یونین سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، حدود وتعزیرات میں کوئی تبدیلی برداشت نہیں کی جائے گی، ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ جیلوں میں جتنے بھی سزائے موت کے قیدی ہیں انہیں فی الفور پھانسی پر لٹکایا جائے، حدود اللہ میں تبدیلی عذاب الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہو گی۔

جید مفتیان اور شیوخ الحدیث کی مشاورت کے بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ توراة میں بھی جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔

(جاری ہے)

پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔قرآن مجید میں قصاص کو انسانی زندگی کی حفاظت کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ کوئی حکمران یا مجلس قانون ساز، اس بارے میں شریعت اسلامیہ کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ البتہ ورثاء کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ بغیر کسی خون بہا کے محض اللہ کی خاطر بھی معاف کرسکتے ہیں، یا خون بہا وصول کرکے جان بخشی کرسکتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی آپشن بھی وہ نہ اپنائیں تو قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا جائے گا۔

آسمانی شرائع میں اس کے احکام کے علاوہ خود انسانی فطرت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ یہی انصاف اور امن کا راستہ ہے۔ مقتول کا خون کیوں اور کس اصول و ضابطے کے تحت مباح قرار پا سکتا ہے؟ اس کا کوئی اخلاقی و انسانی اور عقلی و منطقی جواز آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ یہ عجیب تہذیب ہے کہ مظلوم کی بجائے ظالم سے ہمدردی اور قاتل کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

یہ تہذیب نہیں بلکہ یہ تو وحشیانہ پن اور سنگ دلی کی بدترین مثال ہے۔ یورپین یونین کے ممالک مالی امداد کے لیے اب تیسری دنیا کے ممالک پر یہ شرط بھی عائد کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک سے قانونِ قصاص ختم کریں اور سزائے موت کو منسوخ کر دیں۔ تجارتی دباؤ کے حربے بھی استعمال ہو رہے ہیں، حکومت ان کی بلیک میلنگ کا شکار نہ ہو۔ پاکستان کو عجیب منافقت اور مخمصے کا شکار ہونے کی بجائے دو ٹوک انداز میں دنیا پر واضح کردنیا چاہیے کہ ہم اس قانون کو نہیں تبدیل کرسکتے۔

گذشتہ چھ سات سالوں سے یہ معطل ہے۔ یہ طرزِ عمل انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ قرآن کے واضح حکم اور نص صریح کی بھی خلاف ورزی ہے ۔پاکستان کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے سرتابی بلکہ بغاوت کرکے وہ کس انجام سے دوچار ہوں گے۔ اس قانون کے ہوتے ہوئے کوئی کمزور محض اپنے وسائل کی کمی کی وجہ سے انصاف سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور کوئی طاقت ور اپنے ذرائع و وسائل اور اثر و رسوخ کی بدولت انصاف کا گلا نہیں۔

موجودہ حکومت نے اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح مغرب کی مرعوبیت سے خوف زدہ ہوکر اس قرآنی و نبوی قانون کو تعطل کا شکار بنا رکھا ہے۔ عدل و انصاف کی علمبردار ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل قاتلوں اور مجرموں کی پشت پناہ بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم حدود اللہ دفاع کے لیے ہر سطح پر تحریک چلائیں گے۔

متعلقہ عنوان :