افغان حکومت اپنے 30لاکھ سے زائد مہاجرین کو بھول چکی ہے‘ افغان صدر اشرف غنی نے مہاجرین کی واپسی افغانستان کی ترقی سے مشروط کردی ‘ لگتا ہے تیس لاکھ افغانیوں کو پاکستانی شہریت دینا ہوگی‘ فاٹا میں صنعتی زون کے قیام کی راہ میں پنجاب اور سندھ کی صنعتی لابیاں رکاوٹ ہیں‘ این جی اوز کے ذریعے فاٹا میں ترقی و خوشحالی نہیں لائی جاسکتی

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور کو وفاقی وزیر برائے سیفران جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی بریفنگ

بدھ 26 نومبر 2014 16:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 26نومبر 2014ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور کو وفاقی وزیر برائے سیفران جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے بتایا ہے کہ افغان حکومت اپنے 30لاکھ سے زائد مہاجرین کو بھول چکی ہے‘ افغان صدر اشرف غنی نے مہاجرین کی واپسی افغانستان کی ترقی سے مشروط کردی ہے‘ لگتا ہے تیس لاکھ افغانیوں کو پاکستانی شہریت دینا ہوگی‘ فاٹا میں صنعتی زون کے قیام کی راہ میں پنجاب اور سندھ کی صنعتی لابیاں رکاوٹ ہیں‘ این جی اوز کے ذریعے فاٹا میں ترقی و خوشحالی نہیں لائی جاسکتی‘ کمیٹی نے فاٹا میں صنعتی زون کے قیام کی اہمیت پر زور اور قبائلی علاقوں کو ٹیکسز میں چھوٹ دینے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا میں ملازمتوں کے فقدان کی وجہ سے نوجوان دہشت گرد بن جاتے ہیں فاٹا میں کام کرنے والی این جی اوز کی مانیٹرنگ کی جائے قائمہ کمیٹی نے گورنر خیبر پختونخواہ کی جانب سے فاٹا ترقیاتی کمیٹی کے ارکان پر اعتراض کرتے ہوئے اس میں مقامی افراد کو شامل کرنے کی سفارش کردی۔

(جاری ہے)

بدھ کو کمیٹی کا اجلاس سینیٹر محمد صالح شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں ارکان کمیٹی سمیت وفاقی وزیر برائے سیفران جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ‘ سیکرٹری وزارت‘ فاٹا سیکرٹریٹ کے حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت سیفران کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا کی چھ ایجنسیوں میں عورتوں اور بچوں کی صحت میں بہتری پر مشتمل خصوصی راشن پیکج فراہم کئے جارہے ہیں۔

رواں سال 16 لاکھ افراد کو راشن کے پیکج فراہم کئے گئے کمیٹی کو بتایا گیا کہ فاٹا کے طلباء طالبات کو میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم فراہم کرنے کیکلئے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں خصوصی کوٹہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس وقت ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں انجینئرنگ کے شعبہ میں 429 طلباء زیر تعلیم ہیں کمیٹی نے کہا کہ فاٹا میں کام کرنے والی این جی اوز کی مانیٹرنگ کی جائے اور اس حوالے سے فاٹا سیکرٹریٹ میں خصوصی طور پر مانیٹرنگ روم قائم کیا جائے جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ این جی اوز ترقیاتی کاموں کے نام پر گھپلے کرتی ہیں ان کی مانیٹرنگ ہونی چاہئے متعدد کام صرف کاغذی کارروائی پر ہی ہوتے ہیں کمیٹی نے فاٹا میں بدامنی کے خاتمہ کیلئے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ وہاں صنعتی زون قائم کیا جائے اور ٹیکسز میں چھوٹ دی جائے کیونکہ ملازمتوں کے فقدان کی وجہ سے نوجوان دہشت گردی میں ملوث ہوجاتے ہیں جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ فاٹا میں انڈسٹری کے قیام کی راہ میں پنجاب اور سندھ کی صنعتی لابیاں رکاوٹ ہیں این جی اوز کے ذریعے خوشحالی ناممکن ہے فاٹا کے لئے مارشل پلان بنانے کی سخت ضرورت ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری فاٹا سیکرٹریٹ اعظم خان نے کمیٹی کو بتایا کہ گورنر خیبر پختونخواہ فاٹا میں ترقی خوشحالی اور ملازمتوں کی فراہمی کیلئے نعمان شیخ کی سربراہی میں فاٹا ڈویلپمنٹ کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس پر کمیٹی نے شدید اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ نعمان شیخ کا تعلق فاٹا نہیں ہے ان کی جگہ مقامی شخص کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے جس پر کمیٹی چیئرمین نے سینیٹر غلام علی کی سربراہی میں سب کمیٹی تشکیل دے دی جس میں سینیٹر احمد حسن اور سینیٹر محمد یعقوب شامل ہونگے۔

افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سیفران جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ افغانستان اپنے تیس لاکھ شہریوں کو واپس لے ہم پر اتنے سارے افراد کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا متعدد بار افغان مہاجرین کی فلاح کیلئے منصوبے بنائے گئے لیکن فنڈز نہ ہونے یک وجہ سے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے افغان صدر اشرف غنی سے دورہ پاکستان کے موقع پر ملاقات کرکے مطالبہ کیا تھا کہ مہاجرین کو واپس لیا جائے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ افغانستان کی ترقی ہوتے ہی ان کو واپس بلالیا جائے گا افغان صدر کے جواب میں لگتا ہے افغانی حکومت اپنے تیس لاکھ مہاجر شہریوں کو بھول گئی ہے اور ان کو پاکستان کی شہریت دینا پڑے گی۔