خیبر پختونخوا‘ خواتین پولیس کمانڈوز، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تیار

بدھ 26 نومبر 2014 12:45

خیبر پختونخوا‘ خواتین پولیس کمانڈوز، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تیار

پشا ور (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 26نومبر 2014ء) خیبر پختونخوا پولیس نے دہشت گردی، جرائم کی روک تھام، قدرتی آفات سے نمٹنے اور خواتین کو فوری ریلیف پہنچانے کے لیے خواتین پولیس کمانڈوز کو بھرتی کیا ہے۔ ان کمانڈوز کے پہلا دستے نے اپنی تربیت مکمل کر لی ہے۔خیبر پختونخوا میں ایسی 150 پولیس کمانڈوز کو تربیت فراہم کی جائے گی۔ یہ پولیس کمانڈوز کسی بھی بڑے واقعہ میں خود کارروائی کرنے کے ساتھ پولیس کی معاونت بھی کرسکیں گی۔

دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ان خواتین کو فوج کے اسپیشل سروسز یونٹ کی طرز پر تربیت دی گئی ہے۔ خواتین پولیس کمانڈوز کی تربیت میں پیراٹروپنگ بھی شامل ہے اور یہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہوں گی۔ کسی بھی موقع پر فوری پہنچنے کے لیے انہیں ہیلی کاپٹر کی سہولت بھی فراہم کی جائیگی۔

(جاری ہے)

خواتین کمانڈوز کا انتخاب پہلے سے موجود ایلیٹ فورسز سے کیا گیا ہے تاکہ مرد پولیس کے ساتھ ساتھ خواتین اہلکاروں کوبھی جرائم کی بیخ کْنی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

پشاور پولیس کے اعلیٰ افسر نجیب الرحمان کے مطابق، ”تربیت مکمل کرنے والی خواتین کمانڈوز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خدمات سرانجام دیں گی۔ انہیں صوبے میں کہیں بھی کارروائی کے لیے بھیجا جاسکتا ہے۔ نہ تو یہ معمول کی ڈیوٹی دیں گی اور نہ ہی انہیں مخصوص شہروں میں تعینات کیا جائے گا بلکہ یہ صوبہ بھر میں مخصوص آپریشن میں کام کرسکیں گی،دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا صوبائی پولیس میں اصلاحات کے حوالے سے کہنا ہے، ”ہم نے پولیس کو مکمل طور پر با اختیار کر دیا ہے۔

پولیس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی تاہم انہیں رزلٹ دینا ہوں گے اور تھانہ کلچر تبدیل کرنا ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس کا رزلٹ بھی دیکھ رہے ہیں کہ تھانہ کلچر میں تبدیلی آگئی ہے، ”اب غلط ایف آئی آر نہیں کاٹی جاتی بلکہ ایف آئی آر کے طریقہ کار کو مزید سہل بنایا گیا ہے۔خیبر پختونخوا کی مخصوص روایات کی وجہ سے عام طور پر خواتین کو پولیس میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے دارالحکومت پشاور میں خواتین اہلکاروں کی تعداد ایک سو سے بھی کم ہے۔

تاہم پولیس کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی کے مطابق خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔ پولیس کے سربراہ جنرل ناصر درانی کا کہنا ہے، ”دنیا بھر دہشت گردی کے ساتھ جو بھی کرنا ہوتا ہے پولیس ہی اسے کنٹرول کرتی ہے۔ پولیس کو آپ تمام سہولیات اور ضروریا ت فراہم کرتے ہیں۔ ہم اس وقت کچھ چیزیں اکھٹی کررہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں کہ اس میں بہتری لا سکیں۔

پولیس میں بہتری لانے کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے نظر انداز کرنے میں ہم سب قصور وار ہیں لیکن میری کوشش ہوگی کہ اس میں بہتری لاسکوں۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خواتین پولیس کی موجودگی میں گھروں میں چھپے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو تلاش کرنے میں بھی آسانی ہوجائے گی۔

متعلقہ عنوان :