بیلجیم پولیس نے شرٹ میں چھپاکر بیٹ لے جانیوالے پاکستانی نوجوان کو دہشتگرد قرار دیدیا،

پاکستانی سفارتخانے کا متاثرہ خاندان کی مدد کی بجائے نوجوان کو خاندان سمیت بیلجیم چھوڑنے کا حکم ، برسلز میں پاکستانی سفارتخانے کے سابق ملازم کے بیٹے کے سفارتخانے پر لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں، عاصم کے والد وزارت تجارت کے ملازم ہیں،برسلز میں پاکستانی سفارتخانے کے کمرشل سیکشن میں تعینات تھے،ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم کی گفتگو

منگل 25 نومبر 2014 21:43

برسلز/اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 25نومبر 2014ء) بیلجیم میں کرکٹ کے شوقین بائیس سالہ عاصم عباسی کو میچ کھیلنے کے لیے جانا مہنگا پڑ گیا، بارش کی وجہ سے شرٹ میں چھپا کر بیٹ لے جاتے نوجوان کی تصویر اخبار میں یہودی مخالف دہشت گرد کے طور پر لگا دی گئی اور کرکٹ بیٹ کو مشتبہ رائفل لکھ دیا، نوجوان کی تصویر دیکھ کر پاکستانی سفارتخانے کے ملازم عاصم کے والد حیران رہ گئے، پاکستانی سفارتخانے نے متاثرہ خاندان کی مدد کرنے کے بجائے کسی بھی تفتیش کے بغیر عاصم کے والد کو نوکری سے نکال دیا اور پاکستان کا نام بدنام کرنے کا الزام لگا کر عباسی فیملی کو فوری بیلجیم سے نکلنے کا حکم دے دیا۔

فیملی کے سات ارکان کے پاسپورٹ بھی طلب کر لئے گئے ہیں۔ برسلز میں پاکستانی سفارتخانے نے اس حوالے سے کوئی بھی موقف دینے سے انکار کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

عاصم عباسی نے بیلجیئم پولیس سے رابطہ کرکے بتایا کہ وہ ایک کرکٹر ہے اور اس نے اپنا کرکٹ بیٹ بارش سے بچانے کیلئے جرسی میں لپیٹ رکھا تھا۔ عاصم عباسی کو دہشت گردی کے الزام سے تو چھٹکارا مل گیا تاہم اس نے الزام لگایا کہ اس سارے معاملے کے باعث اس کے والد کو برسلز میں پاکستانی سفارتخانے نے ملازمت سے برخاست کر دیا ہے۔

دوسری طرف بیلجیم پولیس اور اسمبلی ارکان نے نوجوان کو دہشت گرد قرار دینے کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ادھر دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ برسلز میں پاکستانی سفارتخانے کے سابق ملازم طفیل عباسی کے بیٹے عاصم عباسی کے سفارتخانے پر لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا کہ عاصم کے والد طفیل عباسی وزارت تجارت کے ملازم ہیں اور برسلز میں پاکستانی سفارتخانے کے کمرشل سیکشن میں تعینات تھے۔

طفیل عباسی کی چار سال کمرشل سیکشن میں تعیناتی کے بعد برسلز میں ان کی مدت ملازمت مارچ 2014ء میں پوری ہو چکی تھی۔ ان کو اب تک اپنی معمول کی پوسٹنگ پر پاکستان واپس آجانا چاہیے تھا۔ طفیل عباسی کی جگہ ایک دوسرے افسر کو کمرشل سیکشن میں تعینات کیا جا چکا تھا لہذا ان کی برخاستگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تسنیم اسلم نے بتایا کہ اس واقعے سے قبل بھی عاصم عباسی کے بیلجیئم میں قیام کو خلاف ضابطہ ملازمت کرنے کے جرم میں غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔