قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس ، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے ارکان گیس کی عدم دستیابی، دس فیصد رائلٹی، گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج، پروڈکشن بونس اور سماجی ذمہ داری فنڈ کا مقامی سطح پر استعمال نہ ہونے پر پھٹ پڑے،نواب علی وسان اور علی گوہر مہر کی مقامی افراد کو ملازمتیں نہ ملنے پر سیکرٹری پٹرولیم سے تلخ کلامی،

اگر حکومت تیل و گیس کی پیداوار والے علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں کرے گی تو مقامی لوگ وہاں سے تیل اور گیس نہیں نکالنے دیں گے، سردار علی گوہر مہر کاانتباہ مختلف کمپنیوں کو الاٹ ہونے والے تیل و گیس کے 28 بلاک میں کام نہیں ہو رہا،10 کمپنیوں کو لائسنس کی منسوخی کیلئے نوٹس بھجوا دیئے ، 6 بھجوائیں گے،ڈی جی پٹرولیم،قائمہ کمیٹی کا انضباطی کارروائی کے حوالے سے عدم اعتماد کا اظہار

منگل 25 نومبر 2014 21:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 25نومبر 2014ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے اجلاس میں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ارکان تیل و گیس کی پیداوار والے اضلاع میں گیس کی عدم دستیابی، دس فیصد رائلٹی، گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج، پروڈکشن بونس اور سماجی ذمہ داری فنڈ کا مقامی سطح پر استعمال نہ ہونے پر پھٹ پڑے، پیپلز پارٹی کے سردار علی گوہر مہر نے کہا کہ اگر حکومت تیل و گیس کی پیداوار والے علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں کرے گی تو پھر مقامی لوگ بھی وہاں سے تیل اور گیس نہیں نکالنے دیں گے، ایم این ایز نواب علی وسان اور علی گوہر مہر کی مقامی افراد کو ملازمتیں نہ ملنے پر سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید سے تلخ کلامی، ڈی جی پٹرولیم نے کہا کہ مختلف کمپنیوں کو الاٹ ہونے والے تیل و گیس کے 28 بلاک میں کام نہیں ہو رہا،10 کمپنیوں کو لائسنس کی منسوخی کیلئے نوٹس بھجوا دیئے جبکہ 6 بھجوائیں گے، قائمہ کمیٹی کا انضباطی کارروائی کے حوالے سے عدم اعتماد کا اظہار، چیئرمین اوگرا سعید احمد نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین اوگرا نہیں بلکہ حکومت کرتی ہے۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کا اجلاس چیئرمین بلال احمد ورک کی زیر صدارت او جی ڈی سی ایل ہاؤس میں منعقد ہوا۔ منیجنگ ڈائریکٹر او جی ڈی سی ایل محمد رفیع نے اراکین قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ملک بھر میں او جی ڈی سی ایل کو تیل و گیس کی تلاش کیلئے 63بلاک الاٹ ہوئے ہیں جنہیں بلوچستان میں 24،پنجاب میں 15، سندھ 12 جبکہ خیبرپختونخوا کے 10بلاک شامل ہیں۔

او جی ڈی سی ایل نے اس حوالے سے تین سال کے دوران 25 ہزار لائن کلو میٹر علاقے کا ٹو ڈی جبکہ 10ہزار مربع کلو میٹر علاقے کا تھری ڈی سروے کرنا ہے، جون 2015ء تک 35کنوئیں کھودے جائیں گے ، جس کے لئے14 رگز کام کر رہی ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کے ناصر خٹک و دیگر ایم این ایز نے اعتراض اٹھایا کہ او جی ڈی سی ایل کی رفتار سست ہے کیونکہ اس کے پاس اتنے بڑے علاقے کا سروے کرنے کیلئے وسائل ہی مجود نہیں۔

ڈائریکٹر جنرل پٹرولیم نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ملک بھر میں تیل و گیس کے 28بلاک ایسے ہیں جو او جی ڈی سی ایل سمیت مختلف کمپنیوں کو الاٹ تو ہو چکے ہیں لیکن وہاں پر خاطر خواہ کام نہیں ہو رہا، اب تک 10کمپنیوں کو لائسنس کی منسوخی کیلئے نوٹس بھجوا چکے ہیں جبکہ مزید 6کو نوٹس بھجوائے جا رہے ہیں۔ اراکین کے استفسار پر سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید نے کہا کہ اس حوالے سے انضباطی کارروائی تسلی یخش نہیں۔

دوران اجلاس صوبہ سندھ ،بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے ایم این ایز نے تیل و گیس کی پیداوار والے علاقوں کو نظرانداز کرنے پر شکایات کے انبار لگا دیئے۔ تحریک انصاف کے ایم این اے ناصر خٹک نے کہا کہ ضلع کرک سے نکلنے والے تیل و گیس سے حکومت 300 ارب روپے سالانہ کماتی ہے جبکہ آئل و گیس فیلڈ سے ایک کلو میٹر فاصلے پر رہائش پذیر افراد کو گیس کی سہولت میسر نہیں، کراچی والوں کو تو مفت میں گیس فراہم کی جاتی ہے جبکہ ہمیں رائلٹی اور پروڈکشن بونس کی رقم سے پائپ لائن بچھانے کا کہا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سردار علی گوہر مہر نے کہا کہ حکومت تیل و گیس کی پیداوار والے اضلاع میں ترقیاتی کاموں پر توجہ دے ورنہ مقامی لوگ تیل و گیس نہیں نکالنے دیں گے۔ ایم این اے نواب علی وسان کا کہنا تھا کہ تیل و گیس کی پیداوار والے اضلاع میں نہ تو اس فیصد رائلٹی خرچ کی جا رہی ہے، نہ پروڈکشن بونس نہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج جبکہ نہ ہی سماجی ذمہ داری فنڈ کے تحت کچھ خرچ ہوتا ہے۔

ایم این اے دوستین ڈومکی نے کہا کہ تیل و گیس کی پیداوار والے علاقوں میں ملازمتوں میں مقامی لوگوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ دوسرے صوبوں کے لوگوں کی پہلے تقرری کی جاتی ہے پھر تبادلہ کر کے بلوچستان لایا جاتا ہے۔ اس موقع پر مذکورہ بالا معاملے پر ایم این ایز علی گوہر مہر اور نواب علی وسان کی سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی بلال ورک نے کہا کہ اس حوالے سے دو ذیلی کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو متعلقہ وفاقی و صوبائی حکام سے ان کا جواب لے کر اپنی رپورٹ پیش کریں گی۔ ایم ڈی سوئی ناردرن پائپ لائنز لمیٹڈ عارف حمید نے بتایا کہ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے کے بعد پیپلز ورکس پروگرام ٹو کے تحت جاری گیس فراہمی کی سکیموں پر کام شروع کر دیا ہے ، البتہ اس حوالے سے مختص کئے گئے 7ارب روپے سے زائد کے فنڈ سٹے آرڈر کی وجہ سے واپس ہو گئے۔

چیئرمین اوگراسعید احمد نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اوگرا صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی مارکی ٹکو دیکھتے ہوئے اضافہ یا کمی تجویز کرتی ہے قیمتیں بڑھانا یا کم کرنے کا فیصلہ حکومت کرتی ہے، اب تک 50 ایل پی جی پٹرول پمپوں کے لائسنس جاری کر چکے ہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری پٹرولیم نعیم ملک نے کہا کہ پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کمپنی پاکستان میں پلاسٹر آف پیرس کی فیکٹری لگا رہی ہے۔