حکومت کی پالیسیوں کا مقصد اازادانہ تجارت کا فروغ ہے،حکومت تجارت کی شفاف پالیسیاں مرتب کرنے میں سنجیدہ ہے ،خرم دستگیر ،

بہتر حکمت عملی اور موثر قانون سازی کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے گا ،سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ

منگل 25 نومبر 2014 21:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 25نومبر 2014ء)وفاقی وزیر برائے تجارت خرم دستگیر نے کہا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کا مقصد اازادانہ تجارت کا فروغ ہے،حکومت تجارت کی شفاف پالیسیاں مرتب کرنے میں سنجیدہ ہے  بہتر حکمت عملی اور موثر قانون سازی کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے گا۔ وہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس و ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اجلاس میں گفتگو کررہے تھے کمیٹی کااجلاس چیئرمین سینیٹر حاجی غلام علی کی زیر صدارت منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر الیاس احمد بلور، سلیم ایچ مانڈو والا، ڈاکٹر کریم احمد خواجہ، حاجی سیف اللہ خان بنگش، سردار محمد یعقوب ناصر، عدنان خان اور مشاہد اللہ خان کے علاوہ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر، سیکرٹری تجارت محمد شہزاد ارباب، ایڈیشنل سیکرٹری کامرس اظہر علی چوہدری، کمشنر آر ٹی او پشاور ایف بی آر نواب خان، ایڈیشنل کمشنر طارق بلوچ، چیف ایف بی آر ڈاکٹر کمال، چیف ایکسپورٹ ایف بی آر ڈاکٹر ارسلان کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں خیبرپختونخوا کی کارروباری برادری سے متعلق عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرانے کے معاملات، فلائنگ کرافٹ پیپر مل چارسدہ کے معاملات، ڈی ٹی آر ای کی رپورٹ، 2012ء سے 2015ء تک تجارتی پالیسی کے لئے تجویز کئے گئے اقدامات پر عملدرآمد، کیبنٹ کی طرف سے 2012ء میں اسلحہ و گولہ بارود کی درآمد کی ترمیمی پالیسی پر عملدرآمد، بیرون ممالک کمرشل اتاشیوں کی تعیناتی کے معاملات، پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی پالیسی کی موجودہ صورتحال کے علاوہ آزادانہ تجارت کے معاہدوں کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی نے وزارت برائے کامرس و ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہدایت کی کہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی کارروباری برادری کے متعلق ہائی کورٹ پشاور اور سپریم کورٹ نے جو فیصلے کئے ہیں ان پر عملدرآمد کرایا جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جب ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ دیدیا تھا تو پھر سپریم کورٹ جانے کی کیا ضرورت تھی، سپریم کورٹ نے بھی وہی فیصلہ دیا اور اس کے فیصلے کا دوبارہ نظرثانی بھی رائی گئی اور وزارت قانون نے بھی ان کے حق میں رائے دی ہوئی ہے اور ادارہ ان فیصلوں پر عملدرآمد کیوں نہیں کروا رہا۔

ایسے رویوں کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ڈی ٹی آر ای کے معاملات کے حوالے سے چیف (ایف اینڈ سی ایف بی آر) نے کمیٹی کو بتایا کہ 2010ء میں حکومت نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام کے لئے ڈی ٹی آر ای کی سہولت دی تھی۔ یہ وزیراعظم کے سپیشل پیکج کے تحت فراہم کی گئی تھی جس پر رکن کمیٹی سینیٹر الیاس بلور نے کمیٹی نے سفارش کی کہ اس سہولت کو پورے ملک کے لئے اعلان کرایا جائے۔

اس سے زرمبادلہ میں اضافہ ہو گا۔ ڈی ٹی آر ای کی سہولت دوسرے شعبوں کو دی گئی ہے۔ ویجیٹیبل گھی کو کیوں نہیں دی جا رہی۔ وفاقی وزیر برائے کامرس و ٹیکسٹائل انڈسٹری خرم دستگیر نے کمیٹی کو بتایا کہ ایکسپورٹ پرموشن کی سکیمیں تمام اداروں کے لئے وزارت تجارت کی پالیسی میں شامل ہیں صرف سمگلنگ کو کنٹرول کرنے کے لئے معاملات ایف بی آر کے حوالے کئے جاتے ہیں۔

حکومت کی پالیسیوں کا مقصد آزادانہ تجارت کا فروغ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کا دورہ کیا اور ان سے باہمی تجارت کے فروغ، سمگلنگ کے کنٹرول اور ایسی تجارتی پالیسیوں پر اتفاق کیا گیا ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین نہ صرف تجارت کو فروغ مل سکے گا بلکہ سنٹرل ایشیاء تک پاکستان کی رسائی بھی ممکن ہو سکے گی۔

حکومت تجارت کی شفاف پالیسیاں مرتب کرنے میں سنجیدہ ہے اور بہتر حکمت عملی اور موثر قانون سازی کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے گا۔ سیکرٹری برائے کامرس و ٹیکسٹائل انڈسٹری محمد شہزاد ارباب نے کمیٹی کو تجارتی پایلسی 2012-15ء پر عملدرآمد کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ سے 15 ارب روپے ملنے تھے مگر وہ نہیں مل سکے جس کی وجہ سے تمام تجویز شدہ پالیسیوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

اراکین کمیٹی نے تجویز شدہ پالیسیوں کو عوامی سطح پر پہنچانے کی سفارش کی تاکہ حکومت حکومت کی طرف سے تجارت کے فروغ کے لئے جو اقدام اٹھائے گئے ہیں ا سے عوام کو بھی فائدہ حاصل ہو سکے۔ اسلحے اور بارود کی درآمد سے متعلق ترمیمی پالیسی کے حوالے سے محمد شہزاد ارباب نے کمیٹی کو بتایا کہ ترمیمی پالیسی پر عملدرآمد کرانے کے لئے کام ہو رہا ہے۔

ایک ہفتے کے اندر پالیسی مرتب ہو جائے گی جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اور اس کو حل کرنے کیلئے اقدامات تیز کئے جائیں۔ بیرون ممالک کمرشل اتاشیوں کی تعیناتی کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ پنجاب سے 23، سندھ سے چار، بلوچستان تین اور خیبرپختونخوا سے چھ آفیسرز بیرون ممالک تعینات کئے گئے ہیں، کارکردگی کی بنیاد پر تعیناتی عمل میں لائی جاتی ہے اور بیرون ملک سے واپس آ کر پھر کسی دوسرے ملک میں بھیجنے یا ملک میں ایک خاص وقت گزارنے کے وقت کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔

سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ کچھ کمرشل اتاشیوں کی مدت 2015ء میں ختم ہو رہی ہے مگر پسند و ناپسند کی وجہ سے اضافی توسیع بھی دی جا رہی ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ کمرشل اتاشیوں کی بیرون ملک کارکردگی بہت خراب ہے، ہماری ایکسپورٹ میں بہتری کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ اراکین کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو کمرشل اتاشیوں سے متعلق قانون سازی کر سکے۔

بھارت کے ساتھ تجارت کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ تجارت کے فروغ کے لئے 1998ء میں ڈائیلاگ پروسیس شروع کیا گیا جس کے 7 دور ہو چکے ہیں پہلے 1963 اشیاء کی تجارت کی منفی لسٹ تھی جو کم ہو کر اب 1209 ہو چکی ہے، 137 اشیاء واہگہ بارڈر سے منگوائی جائیں گی اور باقی اشیاء کراچی کے ذریعے آنے کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیا روڈ میپ بنایا جا رہا ہے جس سے تمام اشیاء واہگہ بارڈر کے ذریعے منگوانے کے لئے تجویز دی گئی ہے کہ بھارت نے سیکورٹی کی وجہ سے یہ پالیسی مرتب کی تھی۔

اراکین کمیٹی نے آزادانہ تجارت کے معاہدوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ اس سہولت کا غلط استعمال کر رہے ہیں، ملک میں کوئی میکنزم موجود نہیں جس کی وجہ سے یہ معلوم ہو سکے کہ کون سی اشیاء منگوائی اور بھیجی جا رہی ہیں اراکین کمیٹی نے ایف ٹی اے کی مانیٹرنگ کی سفارش کرتے ہوئے ایف ٹی اے کے غلط استعمال کو کنٹرول کرنے کی ہدایت کر دی۔