بدعنوان عناصر ایمانداری کی بات کرتے ہیں‘ چور اور جرائم پیشہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چوریاں ہورہی ہیں اور امن و امان تہہ و بالا ہے‘ ملک میں مفادات کے ٹکراؤ کا قانون نافذ کیا جائے تاکہ سیاستادان اور پولیس سمیت تمام سرکاری ملازم تجارت نہ کرسکی،

ڈی آئی جی حیدرآباد ثناء اللہ عباسی کاخطاب

منگل 25 نومبر 2014 19:48

حیدرآباد ( اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 25نومبر 2014ء ) ڈی آئی جی حیدرآباد ثناء اللہ عباسی نے کہا ہے کہ بدعنوان عناصر ایمانداری کی بات کرتے ہیں‘ چور اور جرائم پیشہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چوریاں ہورہی ہیں اور امن و امان تہہ و بالا ہے‘ ملک میں مفادات کے ٹکراؤ کا قانون نافذ کیا جائے تاکہ سیاستادان اور پولیس سمیت تمام سرکاری ملازم تجارت نہ کرسکیں‘ وہ حیدرآباد کے مقامی ہوٹل میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹیڈیز کے تحت قانون کی بالا دستی کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں پولیس میں صلاحیت‘ کارکردگی اور ساکھ کے موضوع پر خطاب کررہے تھے‘ ڈی آئی جی حیدرآباد ثناء اللہ عباسی کا کہناتھاکہ بد عنوان عناصر ایمانداری کی بات کرتے ہیں چور اور جرائم پیشہ پریس کانفرنس کرتے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ چوریاں ہورہی ہیں اور امن وامان تہہ وبالاہے‘ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ کہتے کچھ ہیں اورکرتے کچھ ہیں اورہر شخص دوسرے کے بارے میں سچ بولتا ہے اور اپنے بارے میں سچ کو چھپاتا ہے‘ انہوں نے کہاکہ پاکستان ایک ایسی منڈی بن چکا ہے جہاں ہر چیز قابل فروخت اور بکاؤ بن چکاہے، پولیس کی استعدادی صلاحیت میں ضرور اضافہ ہوناچاہئے ،پولیس کے معیار میں اضافہ ہوناچاہئے تعداد میں نہیں بلکہ صلاحیتوں اور معیار کے حساب سے اضافہ ہونا چاہیے، فری ٹرائل ایکٹ پر عمل ہونا چاہئے ،ملک میں مفادات کے ٹکراؤ کا قانون نافذ کیاجائے تاکہ سیاستدان اور سرکاری ملازم بشمول پولیس تجارت نہ کریں،تھانوں میں سی پی ایل سی کی طرز پر تھرڈ پارٹی کا وجود ضروری ہے جس سے بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے ،انہوں نے کہاکہ لوگ بات کریں گے تو یقینابہتری آئے گی، ہمارا اور دیگر اداروں کا احتساب ہوسکے گا‘ اس موقع پر ریٹائرڈ سول سرونٹ گل محمد عمرانی نے کہا ہے کہ ملک میں ہر چیز سیاسی اکھاڑوں سے ہورہی ہے اورتمام لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں اور تنقید کرنے سے پہلے اپنے دائیں بائیں دیکھتے ہیں‘ ان کا کہناتھاکہ سیاست اور سیاستدانوں کو پولیس سے نکالناہوگا اسی صورت میں پولیس غیر جانبدار ہوکر کام کرسکے گی‘ گل محمد عمرانی نے کہا کہ حکومت سندھ صرف فیس بک پر موجود ہے اور ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کو جھوٹا قرار دے کر اپنی فیس سیونگ کررہی ہے ،انہوں نے کہا کہ ایک آمر نے مجسٹریٹی کے نظام کو ختم کرکے پورے نظام کو تہہ و بالا کردیا، 1861ء کے پولیس قانون میں ایس ایس پی کی سالانہ خفیہ رپورٹ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لکھتا تھا اور اس نظام میں چیک اینڈ بیلنس موجود تھا جو لوگ مشرف کو پسند نہیں کرتے تھے وہ پولیس میں 1861والا قانون واپس لے آئے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں گڈگورننس احتساب اور شفافیت کوئی نہیں چاہتاکیوں کہ خدشہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس کی زد میں آجائے گا، ہر ایم پی اے نے وطیرہ بنایاہواہے کہ ایک بھائی کو محکمہ پولیس میں ملازمت دلاتا ہے اور دوسرے بھائی کو انتظامیہ میں رکھواتا ہے ، سیاستدان کو پولیس سے نکالنا ہوگا ،انہوں نے کہاکہ سندھ میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا ہے تمام معاملات سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہیں‘ سیمینار سے ایوان زراعت سندھ کے جنرل سیکریٹری بخش سٹھیو، رکن سندھ اسمبلی رعنا صدیقی،ایوان صنعت وتجارت کے قیوم نصرت اور سی پی ایل سی کی جانب سے ڈاکٹر قاسم فرید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کی استعدادی صلاحیت میں اضافے کیلئے مختلف تجاویز پیش کیں‘ سیمینار میں مقررین کے علاوہ شرکاء نے بھی اپنی آراء پیش کیں‘ اکثر نے محکمہ پولیس کوسیاسی اثر و رسوخ اور مداخلت سے محفوظ رکھنے،پولیس کو بہتر سہولتوں،تنخواہوں اور مراعات دینے اور ان کے حالات کار بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

متعلقہ عنوان :